Bal-i-Jibril
From IQBAL
Bal-i-Jibril (Urdu: بال جبریل; or Gabriel's Wing; published in Urdu, 1935) was a philosophical poetry book of Allama Iqbal, the great South Asian poet-philosopher, and the national poet of Pakistan.
حصہ دوم
- مجھے آہ و فغان نیم شب کا پھر پیام آیا
- نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
- فطرت کو خرد کے روبرو کر
- یہ پیران کلیسا و حرم، اے وائے مجبوری
- تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
- ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
- ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
- خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
- مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟
- حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے
- رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی
- ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
- یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ
- نہ تخت و تاج میں، نے لشکر و سپاہ میں ہے
- فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشہ چالاک
- کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
- کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی
- نے مہرہ باقی، نے مہرہ بازی
- گرم فغاں ہے جرس، اٹھ کہ گیا قافلہ
- مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی
- ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہ نو
- کھو نہ جا اس سحروشام میں اے صاحب ہوش!
- تھا جہاں مدرسہ شیری و شاہنشاہی
- ہے یاد مجھے نکتہ سلمان خوش آہنگ
- فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
- کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف
- شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب
- انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
رباعیات
- رہ و رسم حرم نا محرمانہ
- ظلام بحر میں کھو کر سنبھل جا
- مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں
- خودی کی خلوتوں میں گم رہا میں
- پریشاں کاروبار آشنائی
- یقیں، مثل خلیل آتش نشینی
- عرب کے سوز میں ساز عجم ہے
- کوئی دیکھے تو میری نے نوازی
- ہر اک ذرے میں ہے شاید مکیں دل
- ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے
- نہ مومن ہے نہ مومن کی امیری
- خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
- نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں
- جمال عشق و مستی نے نوازی
- وہ میرا رونق محفل کہاں ہے
- سوار ناقہ و محمل نہیں میں
- ترے سینے میں دم ہے، دل نہیں ہے
- ترا جوہر ہے نوری، پاک ہے تو
- محبت کا جنوں باقی نہیں ہے
- خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا
- چمن میں رخت گل شبنم سے تر ہے
- خرد سے راہرو روشن بصر ہے
- جوانوں کو مری آہ سحر دے
- تری دنیا جہان مرغ و ماہی
- کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں
- وہی اصل مکان و لامکاں ہے
- کبھی آوارہ و بے خانماں عشق
- کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق
- عطا اسلاف کا جذب دروں کر
- یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سے
- خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے
- خدائی اہتمام خشک و تر ہے
- یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا
- دم عارف نسیم صبح دم ہے
- رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
- کھلے جاتے ہیں اسرار نہانی
- زمانے کی یہ گردش جاودانہ
- حکیمی، نامسلمانی خودی کی
- ترا تن روح سے ناآشنا ہے
- قطعہ