Difference between revisions of "Bal-i-Jibril"
From IQBAL
(→حصہ دوم) |
(→حصہ دوم) |
||
Line 4: | Line 4: | ||
<div dir="rtl"> | <div dir="rtl"> | ||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
− | |||
== رباعیات == | == رباعیات == | ||
* [[Rah-O-Rasm-E-Haram Na Meharmana|رہ و رسم حرم نا محرمانہ]] | * [[Rah-O-Rasm-E-Haram Na Meharmana|رہ و رسم حرم نا محرمانہ]] |
Revision as of 01:25, 12 July 2018
Bal-i-Jibril (Urdu: بال جبریل; or Gabriel's Wing; published in Urdu, 1935) was a philosophical poetry book of Allama Iqbal, the great South Asian poet-philosopher, and the national poet of Pakistan.
رباعیات
- رہ و رسم حرم نا محرمانہ
- ظلام بحر میں کھو کر سنبھل جا
- مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں
- خودی کی خلوتوں میں گم رہا میں
- پریشاں کاروبار آشنائی
- یقیں، مثل خلیل آتش نشینی
- عرب کے سوز میں ساز عجم ہے
- کوئی دیکھے تو میری نے نوازی
- ہر اک ذرے میں ہے شاید مکیں دل
- ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے
- نہ مومن ہے نہ مومن کی امیری
- خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
- نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں
- جمال عشق و مستی نے نوازی
- وہ میرا رونق محفل کہاں ہے
- سوار ناقہ و محمل نہیں میں
- ترے سینے میں دم ہے، دل نہیں ہے
- ترا جوہر ہے نوری، پاک ہے تو
- محبت کا جنوں باقی نہیں ہے
- خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا
- چمن میں رخت گل شبنم سے تر ہے
- خرد سے راہرو روشن بصر ہے
- جوانوں کو مری آہ سحر دے
- تری دنیا جہان مرغ و ماہی
- کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں
- وہی اصل مکان و لامکاں ہے
- کبھی آوارہ و بے خانماں عشق
- کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق
- عطا اسلاف کا جذب دروں کر
- یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سے
- خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے
- خدائی اہتمام خشک و تر ہے
- یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا
- دم عارف نسیم صبح دم ہے
- رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
- کھلے جاتے ہیں اسرار نہانی
- زمانے کی یہ گردش جاودانہ
- حکیمی، نامسلمانی خودی کی
- ترا تن روح سے ناآشنا ہے
- قطعہ