The Prologue
From IQBAL
نہدير ميں نہ حرم ميں خودی کی بيداری
کہخاوراں ميں ہے قوموں کی روح ترياکی
اگرنہ سہل ہوں تجھ پر زميں کے ہنگامے
بریہے مستی انديشہ ہائے افلاکی
ترینجات غم مرگ سے نہيں ممکن
کہتو خودی کو سمجھتا ہے پيکر خاکی
زمانہاپنے حوادث چھپا نہيں سکتا
تراحجاب ہے قلب و نظر کی ناپاکی
عطاہوا خس و خاشاک ايشيا مجھ کو
کہميرے شعلے ميں ہے سرکشی و بے باکی!
(2)
تراگناہ ہے اقبال! مجلس آرائی
اگرچہتو ہے مثال زمانہ کم پيوند
جوکوکنار کے خوگر تھے، ان غريبوں کو
ترینوا نے ديا ذوق جذبہ ہائے بلند
تڑپرہے ہيں فضاہائے نيلگوں کے ليے
وہپر شکستہ کہ صحن سرا ميں تھے خورسند
تریسزا ہے نوائے سحر سے محرومی
مقامشوق و سرور و نظر سے محرومی