Actions

Piyam e Mashriq

From IQBAL

پیام مشرق

ہے دل روشن مرا سوز دروں سے جہاں بیں آنکھ میری اشک خوں سے وہ کیا سمجھے گا رمز زندگی جو ملائے عشق کے رشتے جنوں سے گل و لالہ میں رنگ آمیزی عشق مری جاں میں بلا انگیزی عشق کرے گر چاک تو اس خاکداں کو تو اس میں پائے گا خونریزی عشق پریشاں اس چمن میں مثل بو ہوں نہ جانے کیوں میں محو جستجو ہوں برائے آرزو بر نہ آئے شہید سوز و ساز آرزو ہوں کلیات اقبال ؍ پیام مشرق صفحہ ۳۱؍۳۲ ٭ جہاں ہے مشت گل دل اس کا حاصل یہی اک قطرہ خوں اس کی مشکل نظر ہی اپنی دو بیں ہے وگرنہ جہاں ہر شخص کا ہے محفل دل کہا یہ روز محشر برہمن نے فروغ زندگی تاب شرر تھا نہ ہو ناراض یا رب تو کہوں میں صنم انسان سے پائندہ تر تھا تو گزرا تیز گام اے اختر صبح مرے سونے سے کیا بیزار گزرا ہوا گمراہ نا آگہی سے تو بیدار آیا اور بیدار گزرا کلیات اقبال ؍ پیام مشرق صفحہ : ۳۲؍ ۳۴ ٭ تہی ہنگامے سے میخانہ ہوتا یہ خاکی شعلے سے بیگانہ ہوتا نہ ہوتا عشق اور ہنگامہ عشق خرد ساں دل اگر فرزانہ ہوتا تجھے جو خود سے بھی بیگانہ کر دے نہیں رکھتا میں وہ آب طرب ناک مرے بازار میں کچھ اور مت ڈھونڈ کہ مثل گل نہیں جز سینہ چاک برون ورطہ بود و عدم ہو فزوں تر از جہان کیف و کم ہو خودی تعمیر کر پیکر میں اپنے بن ابراہیم معمار حرم ہو! کلیات اقبال؍ پیام مشرق صفحہ ۳۴؍۳۶؍۳۷ ٭ گدائے جلوہ پہنچا تو سر طور مری جاں خود سے ہی نامحرمی ہے جہاں میں جستجوے آدمی کر خدا کو بھی تلاش آدمی ہے کہو جبریل سے میری طرف سے کہ پیکر گو مرا نوری نہیں ہے ملی ہے تاب و تب ہم خاکیوں کو پر اس کو ذوق مہجوری نہیںہے نبود و بود میں اپنی ہوں خاموش یہ کہنا بھی کہ ہوں ہے خود پرستی نو اے سادہ یہ کس کی ہے لیکن میں ہوں سینے میں یہ کہتا ہے کوئی کلیات اقبال؍ پیام مشرق صفحہ ۴۰؍۴۱ ٭ نہیں معلوم خوب و زشت تیرا کیا معیار ہے سود و زیاں کو نہیں تنہا تر اس محفل میںمجھ سا کہ چشم غیر سے دیکھا جہاں کو تو خورشید اور میں سیارہ تیرا کہ میرا نور ہے نظارہ تیرا ہوں دور آغوش سے تیری ادھورا تو قرآں اور میں سی پارہ تیرا زانجم تا بہ انجم صد جہاں تھا خرد پہنچی جہاں تک آسماں تھا مگر جب اپنے اندر میں نے جھانکا کران بے کراں مجھ میںنہاں تھا کلیات اقبال ؍ پیام مشرق صفحہ: ۴۲؍۴۵؍۴۶ ٭ نفس آوارہ موج اک اس کے یم سے نے و نغمہ ہمارا اس کے دم سے لب جوے ابد ہیں مثل سبزہ رگ و ریشہ ہمارا اس کے نم سے ہے پیچاں درد یہ سینے میں تیرے بنایا کیوں جہان رنگ و بو کو ہے وجہ رنج کیوں بے باکی عشق کہ خود پیدا کیا اس ہائو ہو کو تو اے کودک منش اپنا ادب ہے مسلماں زادہ ہے ترک نسب کر بہ رنگ احمر و خون و رگ و پوست عرب اترائے تو ترک عرب کر کلیات اقبال؍ پیام مشرق صفحہ: ۴۶؍۴۷ ٭ نہاں سینے میں اپنے ایک عالم ہے اپنی خاک میں دل دل میں ہے غم فروغ جاں ہوئی صہبا جو اس سے سبو میں اپنے باقی اب بھی ہے نم وہ جو رکھتا نہیں ہے درد پنہاں ہے رکھتا تن نہیں رکھتا مگر جاں اگر جاں کی ہوس ہے تو طلب کر وہ تاب و تب کہ جس کو ہو نہ پایاں نہیں معلوم بادہ ہوں کہ ساغر ہیں دامن میںگہر یا خود ہوں گوہر نظر ڈالوں جو دل پر دیکھتا ہوں ہے میری جان دیگر میں ہوں دیگر کلیات اقبال؍ پیام مشرق صفحہ ۴۷؍۴۸؍ ۵۰ ٭ میں جب جنت میں پہنچا بعد از مرگ نظر میںیہ زمیں تھی آسماں تھا در آیا جان حیراں میں عجب شک جہاں تھا وہ کہ تصویر جہاں تھا مرا دل رازدان جسم و جاں ہے گماں مت کر اجل مجھ پر گراں ہے جہاں اک ہو گیا اوجھل تو کیا غم مرے دل میں ہجوم صد جہاں ہے مرا دل بے قرار آرزو ہے مرے سینے میں برپا ہائو ہو ہے سخن کیا ہمنشیں! مجھ سے کہ مجھ کو بس اپنے آپ ہی سے گفتگو ہے کلیات اقبال ؍ پیام مشرق صفحہ: ۵۱؍۵۳؍۵۴ ٭ ہے اندر جلوہ افکار یہ کیا بروں اسرار ہی اسرار یہ کیا بتا کچھ اے حکیم نکتہ پرداز! بدن آسودہ جاں سیار یہ کیا کہو ان صوفیان باصفا کو خدا جویان معنی آشنا کو غلام اس خود نگر انساں کا ہوں جو خودی کے نور سے دیکھے خدا کو کلیات اقبال ؍ پیام مشرق صفحہ: ۵۵؍۵۶ ٭ میرا سلام کہنا اس ترک تند خو کو پھونکا نگہ جس نے اک شہر آرزو کو یہ نکتہ جانتا ہے اک درد مند غدر دل ہی کی ہے اگرچہ توبہ توڑا نہیں سبو کو اس کی وفا پہ تکیہ اے عندلیب کب تک لیتی ہے تو بغل میں پھر اس رمیدہ بو کو رمز حیات کیا ہے ؟ اک پیچ و تاب پیہم آسودگی قلزم ہے ننگ آبجو کو خوش ہوں کہ عاشقوں کو سوز دوام بخشا اولاد و ابنایا آزار جستجو کو برتر وصال ہے ہوں بالا خیال سے ہوں کیا عذر نو دیا ہے اشک بہانہ جو کو نالے سے گلستاں پر آشوب محشر آئے جب تک کہ دم میں دم ہے مت چھوڑ ہائو ہو کو ہیں خا پہ رو میں مثال شرارہ ہیں بحر خلا میں محو تلاش کنارہ ہیں اک شعلہ حیات سے بود و نبود ہے ذوق خودی سے مثل شرر پارہ پارہ ہیں عقل بلند دست سے اے نوریو! سنو ہم اہل خاک چاند پہ محو نظارہ ہیں ہم عشق میں وہ غنچہ کہ جھومے صبا کے ساتھ گرکار زندگی ہو تو ہم سنگ خارہ ہیں نرگس کی طرح لائے ہیں ہم بھی چمن میں آنکھ رخ سے نقاب الٹ کر سراپا نظارہ ہیں کلیات اقبال ؍ پیام مشرق صفحہ : ۱۲۶ صوفیوں میں سے ایک کے لیے ہوس منزل لیلیٰ نہ تو رکھتا ہے نہ میں جگر گرمی صحرا نہ تو رکھتا ہے نہ میں میںنیا ساقی ہوں تر پیر خرابات کہن تشنہ بزم اپنی پہ صہبا نہ تو رکھتا ہے نہ میں دل و دیں ہے گرو زہرہ و شان عجمی آتش شوق سلیمیٰ نہ تو رکھتا ہے نہ میں اک خزف تھی کہ جو ساحل سے اٹھا لائے ہم دانہ گوہر یکتا نہ تو رکھتا ہے نہ میں اب کرے کون یہاں یوسف گم گشتہ کی بات تپش خون زلیخا نہ تو رکھتا ہے نہ میں ہم کو ہے نور چراغ تہ داماں ہی بہت طاقت جلوہ جاناں نہ تو رکھتا ہے نہ میں کلیات اقبال ؍ پیام مشرق صفحہ ۱۳۲ ٭٭٭