Actions

Difference between revisions of "Pehla musheer"

From IQBAL

(Created page with " پہلامُشیر اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ اِبلیسی نظام پُختہ تر اس سے ہوئے خُوئے غلامی میں عوام ہے...")
 
Line 3: Line 3:
  
 
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ اِبلیسی نظام
 
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ اِبلیسی نظام
 +
 
پُختہ تر اس سے ہوئے خُوئے غلامی میں عوام
 
پُختہ تر اس سے ہوئے خُوئے غلامی میں عوام
 +
 
ہے اَزل سے ان غریبوں کے مقدّر میں سجود
 
ہے اَزل سے ان غریبوں کے مقدّر میں سجود
 +
 
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام
 
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام
 +
 
آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
 
آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
 +
 
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
 
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
 +
 
یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
 
یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
 +
 
صوفی و مُلّا مُلوکیّت کے بندے ہیں تمام
 
صوفی و مُلّا مُلوکیّت کے بندے ہیں تمام
 +
 
طبعِ مشرق کے لیے موزُوں یہی افیون تھی
 
طبعِ مشرق کے لیے موزُوں یہی افیون تھی
 +
 
ورنہ ’قوّالی‘ سے کچھ کم تر نہیں ’علمِ کلام‘!
 
ورنہ ’قوّالی‘ سے کچھ کم تر نہیں ’علمِ کلام‘!
 +
 
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
 
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
 +
 
کُند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام
 
کُند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام
 +
 
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید؟
 
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید؟
 +
 
’ہے جہاد اس دَور میں مردِ مسلماںپر حرام!
 
’ہے جہاد اس دَور میں مردِ مسلماںپر حرام!

Revision as of 09:42, 25 May 2018

پہلامُشیر

اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ اِبلیسی نظام

پُختہ تر اس سے ہوئے خُوئے غلامی میں عوام

ہے اَزل سے ان غریبوں کے مقدّر میں سجود

ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام

آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں

ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام

یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج

صوفی و مُلّا مُلوکیّت کے بندے ہیں تمام

طبعِ مشرق کے لیے موزُوں یہی افیون تھی

ورنہ ’قوّالی‘ سے کچھ کم تر نہیں ’علمِ کلام‘!

ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا

کُند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام

کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید؟

’ہے جہاد اس دَور میں مردِ مسلماںپر حرام!