Payam e subah
From IQBAL
پیام صبح
اجالا جب ہوا رخصت جبین شب کی افشاں کا
نسیم زندگی پیغام لائی صبح خنداں کا
جگایا بلبل رنگیں نوا کو آشیانے میں
کنارے کھیت کے شانہ ہلایا اس نے دہقاں کا
طلسم ظلمت شب سورہء والنور سے توڑا
اندھیرے میں اڑایا تاج زر شمع شبستاں کا
پڑھا خوابیدگان دیر پر افسون بیداری
برہمن کو دیا پیغام خورشید درخشاں کا
ہوئی بام حرم پر آ کے یوں گویا موذن سے
نہیں کھٹکا ترے دل میں نمود مہر تاباں کا؟
پکاری اس طرح دیوار گلشن پر کھڑے ہو کر
چٹک او غنچہ گل! تو موذن ہے گلستاں کا
دیا یہ حکم صحرا میں چلو اے قافلے والو
چمکنے کو ہے جگنو بن کے ہر ذرہ بیاباں کا
سوئے گور غریباں جب گئی زندوں کی بستی سے
تو یوں بولی نظارا دیکھ کر شہر خموشاں کا
ابھی آرام سے لیٹے رہو، میں پھر بھی آئوں گی
سلادوں گی جہاں کو خواب سے تم کو جگائوں گی