|
|
Line 1: |
Line 1: |
− | <div dir="rtl">
| |
− | ''خطبہ عید الفطر ''
| |
| | | |
− | عید الفطر
| |
− |
| |
− | بسمہ اللہ الرحمن الرحیم
| |
− |
| |
− | قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے فرمایا
| |
− | ہے:
| |
− |
| |
− | شھر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس و بینت من الھدی و الفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ۔
| |
− |
| |
− | یہی ارشاد خداوندی ہے جس کی تعمیل میں آپ نے ماہ رمضان کا پورا مہینہ روزے رھے اور اس اطاعت
| |
− | الہی کی توفیق پانے کی خوشی میں آج بحیثیت قوم خدا تعالی کی یادگاہ میں سجدۂ شکر بجا لانے کے لیے جمع
| |
− | ہوئے۔
| |
− |
| |
− | بے شک مسلم کی عید اور اس کی خوشی اگر کچھ ہے تو وہ یہ کہ اطاعت حق یعنی عبدیت کے فرائض کی
| |
− | بجا آوری میں پورا نکے۔ اور قومیں بھی خوشی کے تیوہار مناتی ہیں مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم
| |
− | ہے جو خدائے پاک کی فرما نبراداری میں پورا اترنے کی عید مناتی ہو۔
| |
− |
| |
− | مؤرخین کے بیان کے مطابق 2 ھ میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ صدقہ عید الفطر کا حکم بھی
| |
− | رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سال جاری فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ایک خطبہ دیا،
| |
− | جس میں اس صدقہ کے فصائل بیان فرمائے۔ پھر صدقہ کا حکم دیا۔عید الفطر کی نماز باجماعت عیدگاہ میں
| |
− | اسی سال ادا فرمائی۔ 2 ھ سے پہلے عید کی نماز نہیں ہوتی تھی۔
| |
− |
| |
− | اسلام کے ارکان یعنی توحید، نماز، روزہ، حج، زکوۃ جب نبی امی کی زبان پاک سے خالق اکبر نے بندوں کی
| |
− | اصلاح و فلاح کے لیے ہدایت فرمائے تو مقصود یہ تھا کہ ان کی پابندی سے "مسلم" بحیثیت فرد" وہ انسان بن
| |
− | سکے جسے وحی خداوندی "احسن التقویم" کے نام سے تعبیر کرتی ہے۔ اور ملّت اسلامیہ" وہ ملّت بن جائے، جو
| |
− | قرآن پاک کے الفاظ کے مطابق دنیا کی "بہترین امت" ہو اور اپنے تمام معاملات میں اعتدادل اور میانہ روی کے
| |
− | اصول کو سامنے رکھنے والی ہو۔ اسلام کا ہر رکن انسانی زندگی کے صحیح نشوونما کے لیے اپنے اندر ہزارہا
| |
− | ظاہری اور باطنی مصلحیتیں رکھتا ہے۔ مجھے اس وقت صرف اسی ایک رکن کی حقیقت کے متعلق آپ سے دو
| |
− | ایک باتیں کہنی ہیں جسے صوم کہتے ہیں اور جس کی پابندی کی توفیق کے شکرانے میں آج آپ عید منارہے
| |
− | ہیں۔
| |
− |
| |
− | روزے پہلی امتوں پر بھی فرض تھے گو ان کی تعداد وہ نہ ہو جو ہمارے روزوں کی ہے اور فرض اس لئے قرار
| |
− | دیئے گئے کہ انسان پرہیز گاری کی راہ اختیار کرے۔ خدا نے فرمایا۔
| |
− |
| |
− | یایھا الذین امنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔
| |
− | گویا روزہ انسان کو پرہیز گاری کی راہ پر چلاتا ہے۔ اس سے جسم اور جان دونوں تزکیہ پاتے ہیں۔ یہ خیال
| |
− | کہ روزہ ایک انفرادی عبادت ہے صحیح نہیں بلکہ ظاہر و باطن کیصفائی کا یہ طریق، یہ ضبط نفس، یہ حیوانی
| |
− | خواہشوں کو اپنے بس میں رکھنے کا نظام اپنے اندر ملّت کی تمام اقتصادی اور معاشرتی زندگی کی اصلاح کے
| |
− | مقاصد پوشیدہ رکھتا ہے۔
| |
− |
| |
− | وہ فائدے جو ایک "فرد" کو روزہ رکھنے سے حاصل ہوتے ہیں، اس صورت میں بھی ہوسکتے تھے کہ روزے
| |
− | بجائے مسلسل ایک مہینہ رکھنے کے کبھی کبھی رکھ لئے جاتے یا بجائے رمضان میں رکھنے کے سال کے اور
| |
− | مہینوں میں رکھ لیے جاتبے۔ اگر محض فرد کی اصلاح اور اس کی روحانی نشوونما پیش نظر ہوتی تو بے شک یہ
| |
− | ٹھیک تھا۔ لیکن فرد کے علاوہ تمام "ملّت" کے اقتصادی اور معاشرتی تزکیہ کی غرض بھی شارع برحق کے سامنے
| |
− | تھی۔
| |
− |
| |
− | آج کی عید عید الفطر" کہلاتی ہے۔ پیغمبر خدا نے جب عید کے لیے عیدگاہ میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا
| |
− | تو ساتھ ہی صدقہ عیدالفطر اداد کرنے کاحکم بھی دیا۔ تعجب نہیں کہ عید کا دن مقرر کرنے کی اصل غرض ہی
| |
− | شارع علیہ الصلوۃ کے نزدیک صدقہ عید الفطر کا جاری کرنا ہو۔ حق یہ ہے کہ زکوۃ اور اصول تقسیم وراثت کے
| |
− | بعد تیسرا طریق اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم کرنے کا جو اسلام نے تجویز کیا "صدقات" کا تھا اور ان
| |
− | صدقات میں سب سے بڑھ کر صدقہ فطر کا۔ اس ليے کہ یہ صدقہ ایک مقررہ دن پر تمام قوم کو ادا کرنا ہوتا ہے۔
| |
− |
| |
− | رمضان کا مہینہ آپ نے اس اہتمام سے بسر کیا ہے کہ کھانے پینے کے اوقات کی پابندی سیکھ لی۔اپنی
| |
− | صحت درست کرلی۔ آئندہ گيارہ مہینے کئي بیماریوں سے محفوظ رہنے کے قابل اپنے آپ کو بنالیا۔ کفایت
| |
− | شعاری سیکھی۔ رزق کی قدر و قیمت سکھی۔ یہ سب ذاتیفائدے تھے۔ صیام کا قومی اور ملّی فائدہ یہ ہے کہ
| |
− | صاحب توفیق مسلمانوں کے دل میں اپنی قوم کے مفلس اور محروم افراد کی عملی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو اور
| |
− | صدقہ فطر ادا کرنے سے قوم میں ایک گونہ اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم ہو۔ حکم یہ ہے کہ "عید" کی
| |
− | نماز میں شرکت سے پہلے ہر صاحب توفیق مسلمان صدقہ فطر ادا کرکے عیدگاہ میں آئے۔ اس سے مقصود یہ
| |
− | نہیں کہ اقتصادی اور معاشرتی مساوات صرف ایک آدھ دن کے لیے قائم ہوجائے بلکہ ایک مہینہ کا متواتر
| |
− | ضبط نفس تم کو اس لیے سکھایا گیا ہے کہ تم اس اقتصادی اور معاشرتی مساوات کو قائم رکھنے کی کوشش
| |
− | تمام سال کرتے رہو۔
| |
− |
| |
− | باقی رہا یہ امر کہ روزے ماہ رمضان کے ساتھ ہی کیوں مختص کئے جائيں۔ سو واضح رہنا چاہئے کہ اسلام نے
| |
− | انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اسرار کو مد نظر رکھ کر "صیام" کے زمانی تسلسل کو ضروری سمجھا
| |
− | ہے۔ اس تسلسل کے لیے وقت کی تعیین لازم تھی اور چونکہ اسلام کا اصل مقصود انسانوں کو احکام الہی کی
| |
− | فرمانبرداری میں پختہ کرنا تھا، اس لیے صیام کو اس مہینہ سے مختص کیا گيا جس میں احکام الہی کا نزوم
| |
− | شروع ہوا تھا۔ بالفاظ دیگر یوں کہو کہ مسلمانوں کو ہر سال پورا مہینہ کامل تزکیہ نفرس کے ساتھ نزول قرآن
| |
− | حکیم کی سالگرہ منانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ احکام الہی کی حرمت و تقدیس ہمیشہ مدنظر رہے اور نماز
| |
− | تراویح پر کار بند ہو کر قوم کے ہر فرد کو اجتماعی حیات کا قانون عملا ازبر ہوجائے۔
| |
− |
| |
− | اصل بات قوم کی اقتصادی اور تمدّنی زندگی کی مجموعی اصلاح کے متعلق تھی۔
| |
− |
| |
− | قرآن میں جہاں مسائل
| |
− | "صیام" کے ذکر کے بعد یہ فرمایا کہ:
| |
− | تلک حدود اللہ فلا تقربوھا کذالک میبین اللہ آیاتہ للناس لعلھم یتقون۔
| |
− |
| |
− | وہاں ساتھ ہی ملحق بطور ان تمام باتوں کے نتیجہ کے یہ حکم بھی دیا۔
| |
− |
| |
− | دلاتا کلوا اموالکم بینکم بالبابطل و تدلوابھا الی الحکام لتا کلو اقریقا من اموال الناس بالاثم و انتم
| |
− | تعلمون۔
| |
− |
| |
− | روزہ رکھ کر مفلسوں سے محض ہمددری کا احساس پیدا کرلینا کافی نہ تھا۔ عید کے دن غربا کو دو چار دن
| |
− | کا کھانا دے دینا کافی نہ تھا۔ طریق وہ اختیار کرنا مقصد تھا جس سے مستقل طور پر دنیاوی مال و متاع سے
| |
− | انتفاع کے قواعد اس طور پر قائم ہوں کہ جہاں تقسیم وراثت اور زکوۃ سے ملّت اسلامیہ کے مال و متاع میں
| |
− | ایک گونہ مساوات پیدا ہو، وہاں اس مساوات میں ایک دوسرے کے اموال میں ناجائز تصّرف سے کسی قسم کا
| |
− | خلل نہ آئے۔ روزوں کے التزام سے صرف انفرادی روحانیت کی ترقی یا زیادہ سے زیادہ انسانوں کے ساتھ ایک
| |
− | ہنگامی ہمدردی ہی مقصود نہیں بلکہ شارع کی نظر اس بات پر ہے کہ تم اپنے اپنے حلال کے کمائے ہوئے مال پر
| |
− | قناعت کرو اور دوسروں کے کمائے ہوئے مال کو باطل طریقوں سے کھانے کی کوشش نہ کرو۔ اس باطل طریق پر
| |
− | دوسروں کا مال کھانے کی بدتریں روش قرآن کے نزدیک یہ ہے کہ مال و دولت کے ذریعہ حکام تک رسائی حاصل
| |
− | کی جائے اور ان کو رشوتوں سے اپنا طرف دار بنا کر اوروں کے مالوں کو اپنے قبضہ میں لایا جائے۔ مذکورہ بالآ
| |
− | آیات میں "اثم" کے معنی بعض مفسرّین نے جھوٹی گواہی وغیرہ کے لیے یں۔ علمائے قرآن نے حکام سے مراد
| |
− | مسلمانوں کے اپنے مفتی، قاضی اور سلٹطان لیے ہیں۔ جب اپنے فقیہوں اور قاضیوں کے پاس جھوٹے مقدمے بنا کر
| |
− | لے جانے کو خدا نے مذموم قرار دیا ہو تو سمجھ لو کہ غیر اسلامی حکومتوں کے حکام کے پاس اس قسم کے
| |
− | مقدمات لے جانا کس قدر ناجائز ہے۔ مہینہ بھر روزے رکھنے کی آخری غرض یہ تھی کہ آئندہ تمام سال اس طرح
| |
− | ایک دوسرے کے ہمدرد اور بھائی بن کر رہو کہ اگر اپنا مال ایک دوسرے کوبانٹ کر دے نہیں سکتے تو کم از
| |
− | کم "حکام" کے پاس کوئي مالی مقدمہ اس قسم کا نہ لے کر جاؤ جس میں ان کو رشوت دے کر حق و انصاف کے
| |
− | خلاف دوسروں کے مال پر قبضہ کرنا مقصود ہو۔
| |
− |
| |
− | آج کے دن سے تمہارا عہد ہونا چاہئے کہ قوم کیاقتصدایاور معاشرتی اصلاح کی جو غرض قرآن حکیم نے
| |
− | اپنے ان احکام میں قرار دی ہے، اس کو تم ہمیشہ مدّنظر رکھو گے۔
| |
− |
| |
− | مسلمانان پنجاب اس وقت تقریبا سوا ارب روپے کے قرض میں مبتلا ہیں اور اس پر ہر سال تقریبا چودہ کروڑ
| |
− | روپیہ سود ادا کرتے ہیں۔ کیا اس قرض اور اس سود سے نجات کی کوئي سبیل سوائے اس کے ہے کہ تم احکام
| |
− | خداوندی کی طرف رجوع کرو اور مالی اور اقتصادی غلامی سے اپنے آپ کو رہا کراؤ؟ تم اگر آج فضول خرچی
| |
− | چھوڑنے کے علاوہ مال اور جائیداد کے جھوٹے اور بلا ضرورت مقدمے عدالتوں میں لے جانا چھوڑ دو تو میں
| |
− | دعوے سے کہتا ہوں کہ چند سال کے اندر تمہارے قرض کا کثیر حصّہ از خود کم ہو جائے گا اور تم تھوڑی مدّت
| |
− | کے اندر قرض غلامی سے اپنے آپ کو آزاد کر لو گے۔ نہ صرف یہ کہ مالی مقدمات کا ترک تمہیں اس قابل بنا
| |
− | دے گا کہ تم وہی روپیہ جو مقدموں اور رشوتوں اور وکیلوں کی فیسوں میں برباد کرتے ہو اسی سے اپنی تجارت
| |
− | اور اپنی صنعت کو فروغ دے سکو گے۔ کیا اب بھی تم کو رجوع الی القرآن کی ضرورت محسوس نہ ہوگی اور تم
| |
− | عہد نہ کرلو گے کہ تمام دنیاوی امور میں شرع قرآنی کے پابند ہوجاؤ گے؟
| |
− | کس انتباہ کے ساتھ رسول پاک نے مسلمانوں کو پکار کر کہا تھا کہ:
| |
− | ایاکم و الدین فانہ ھم باللیل و مذلۃ بالنھار۔
| |
− |
| |
− | (دیکھو قرض سے بچنا۔قرض رات کا اندوہ اور دن کی خواری ہے۔)
| |
− | اس خطبے میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگي کے صرف اقتصادی پہلو ہی پر نظر ڈالی گئي ہے۔ شاید عید
| |
− | الضحی کے موقع پر اسی قسم کے ایک خطبے میں اسلامی زندگی کے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالنے کی
| |
− | کوشش کی جائے گی۔ فی الحال میں حضور سرور کائنات کی ایک حدیث پر اس خطبے کو ختم کرتا ہوں جو
| |
− | ایک نہایت لطیف پیرایہ میں رشد و ہدایت کی تمام شاہ راہوں کو انسان پر کھول دیتی ہے۔
| |
− |
| |
− | امرنی ربی یتبع الاخلاص فی السہ و العلانیۃ و العدل فی الغضب و الرضا و القصد فی الفقر و الغنی و ان
| |
− | اعفوعن من ظلمنی و اصل من قطعنی و اعطی من حومنی و ان یکون نطقی ذکرا وصمی فکرا و نظری عبرۃ۔
| |
− |
| |
− | مجھے میرے رب نے نو باتوں کا حکم دیا ہے۔ ظاہر و باطن میں اخلاص پر کاربند رہنا۔ غضب و رضا دونوں
| |
− | حالتوں میں انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا۔ فقر و تونگری میں میانہ روی۔ جو شخص مجھ پر زیادتی کرے اس کو
| |
− | معاف کر دوں۔ جو مجھ سے قطع رحم کرے اس سے صلۂ رحم کروں۔ جو مجھے محروم کرے میں اس کو اپنے پاس
| |
− | سے دوں میرا بولنا ذکر الہی کے لیے ہو۔ میری خاموشی غور و فکر کے لیے ہو اور میرا دیکھنا عبرت حاصل
| |
− | کرنے کے لیے ہو۔
| |
− | </div>
| |