Actions

Aik Gaye aur bakri

From IQBAL

ایک گائے اور بکری

اک چراگہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں

کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں
ہر طرف صاف ندیاں تھیں رواں

تھے اناروں کے بے شمار درخت
اور پیپل کے سایہ دار درخت

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں
طائروں کی صدائیں آتی تھیں

کسی ندی کے پاس اک بکری
چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی

جب ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا
پاس اک گائے کو کھڑے پایا

پہلے جھک کر اسے سلام کیا
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا

کیوں بڑی بی! مزاج کیسے ہیں
گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں

کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی

جان پر آ بنی ہے، کیا کہیے
اپنی قسمت بری ہے، کیا کہیے

دیکھتی ہوں خدا کی شان کو میں
رو رہی ہوں بروں کی جان کو میں

زور چلتا نہیں غریبوں کا
پیش آیا لکھا نصیبوں کا

آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
اس سے پالا پڑے، خدا نہ کرے

دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے
ہوں جو دبلی تو بیچ کھاتا ہے

ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے
کن فریبوں سے رام کرتا ہے

اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں
دودھ سے جان ڈالتی ہوں میں

بدلے نیکی کے یہ برائی ہے
میرے اللہ! تری دہائی ہے

سن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی، ایسا گلہ نہیں اچھا

بات سچی ہے بے مزا لگتی
میں کہوں گی مگر خدا لگتی

یہ چراگہ، یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
یہ ہری گھاس اور یہ سایا

ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں
یہ کہاں، بے زباں غریب کہاں!

یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں
لطف سارے اسی کے دم سے ہیں

اس کے دم سے ہے اپنی آبادی
قید ہم کو بھلی، کہ آزادی

سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا
واں کی گزران سے بچائے خدا

ہم پہ احسان ہے بڑا اس کا
ہم کو زیبا نہیں گلا اس کا

قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو

گائے سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچھتائی

دل میں پرکھا بھلا برا اس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اس نے

یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی