کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے
From IQBAL
کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے
کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے
مرے بازار کی رونق ہی سودائے زیاں تک ہے
وہ مے کش ہوں فروغ مے سے خود گلزار بن جائوں
ہوائے گل فراق ساقی نامہرباں تک ہے
چمن افروز ہے صیاد میری خوشنوائی تک
رہی بجلی کی بے تابی، سو میرے آشیاں تک ہے
وہ مشت خاک ہوں، فیض پریشانی سے صحرا ہوں
نہ پوچھو میری وسعت کی، زمیں سے آ سماں تک ہے
جرس ہوں، نالہ خوابیدہ ہے میرے ہر رگ و پے میں
یہ خاموشی مری وقت رحیل کارواں تک ہے
سکون دل سے سامان کشود کار پیدا کر
کہ عقدہ خاطر گرداب کا آب رواں تک ہے
چمن زار محبت میں خموشی موت ہے بلبل!
یہاں کی زندگی پابندی رسم فغاں تک ہے
جوانی ہے تو ذوق دید بھی، لطف تمنا بھی
ہمارے گھر کی آبادی قیام میہماں تک ہے
زمانے بھر میں رسوا ہوں مگر اے وائے نادانی!
سمجھتا ہوں کہ میرا عشق میرے رازداں تک ہے