Actions

پر امید مستقبل

From IQBAL

’’شکوہ‘‘ مسلمانوں کے انحطاط کا مرثیہ تھا ’’ جوابِ شکوہ‘‘ میں ان کی پستی اور حالت زبوں کومزید تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس سے دلوں میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہونا قدرتی ہے۔ اس کیفیتِ یاس کو زائل کرنے کے لیے اقبال مسلمانوں کو اطمینان دلاتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنا مردانگی نہیں ۔ بند ۲۶- ۳۱ میں انھوں نے مختلف مثالوں اور تاریخی واقعات کے ذریعے اس امر پر زور دیا ہے کہ : باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا جس دور میں اقبال نے یہ نظم لکھی، عالم اسلام میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جو مسلمانوں کے لیے بظاہر مایوس کن تھے، مثلاً: ۱۳- ۱۹۱۲ء میں ریاست ہاے بلقان نے ترکی پر حملہ کر دیا:(ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا) اور ترکی کو پے در پے ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اسی طرح ایران بھی غیر ملکی طاقتوں کی گرفت میں تھا۔ چند سال پہلے روس اور برطانیہ نے ایک معاہدہ کرکے ایران میں اپنے اپنے حلقہ ہاے اثر متعیّن کر لیے تھے۔ اب ایران پر روسی دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ اقبال نے مسلمانوں کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو اس صورت حال سے دل شکستہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ قوموں کی تاریخ میں نشیب و فراز تو آتے رہتے ہیں۔ یہ نتیجہ اقبال نے تاریخ سے اخذ کیا ہے اور اس کے لیے ان کے پاس کچھ وجوہات ہیں: ۱۔ اسلام دوسرے مذاہب سے اور مسلمان دوسری اقوام سے مختلف حیثیت کے مالک ہیں۔ اسلامی تحریک کے پس منظر میں سیکڑوں برس کی جدو جہد ، کشمکش اور طاقتور عوامل کارفرما ہیں۔ ’’پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا‘‘سے مراد ہے کہ نخل اسلام کی نشوونما اور ارتقا میں ان بے شمار فرزندان توحید کی کوششوں کو دخل ہے جنھوں نے علوم و فنون، حکومت و سیادت اور جنگ و جدل کے میدان میں مستحکم روایات قائم کیں اور تاریخ میں اَن مٹ اور یادگار نقوش چھوڑے ۔ ۲۔پھر عصر حاضر میں یورپ کی تباہی کا سبب قوم پرستی(Nationalism)کی لعنت ہے مگر اسلام کے نزدیک قوم پرستی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ملت اسلامیہ خود کو کسی ایک جغرافیائی خطے یالسانی اور نسلی گروہ تک محدود نہیں سمجھتی اس کے نزدیک:’’ہر ملک ، ملک ماست کہ ملک خداے ماست‘‘۔ ۳-ملت اسلامیہ کو فنا ہو جانے کا اس لیے بھی کوئی خطرہ نہیں کہ اس کے پاس جذبۂ عشق ( بانگِ درا) جیسی قیمتی متاع ہے اوردوسری قومیں اس سے محروم ہیں۔ ۴۔ بسااوقات انسان کی ظاہر بین نگاہیں احوال وواقعات کی تہ میں چھپے ہوئے حقیقی عوامل کا پتا لگانے سے قاصر رہتی ہیں۔ کسی مسلم علاقے پر کوئی آفت ٹوٹتی ہے تو مسلمان سمجھتے ہیں کہ شاید وہ نیست و نابود ہو رہے ہیں۔ اقبال کے نزدیک یہ عین ممکن ہے کہ ظاہر ی آفت ان کے لیے کسی وقت باعثِ رحمت ثابت ہو۔ اس کا پس منظر یوں ہے کہ ۶۱۶ھ میں چنگیز کی فوجوں نے سمرقند، بخارا اور ماوراء النہر کے علاقوں کو روند ڈالا، شہر اجڑ گئے اور شہروں کے شہر پیوندِ زمین ہوگئے۔ پھر ایک زمانے میں تاتاریوں نے ہلاکوخان کی سر کردگی میں بغداد پر حملہ کرکے اسے تباہ کر دیا مگر خدا کی شان کہ ہلاکو خان کے بیٹے اباقاخان نے ایک مسلمان بزرگ خواجہ شمس الدین کو اپنا وزیر اعظم اور اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کیا۔ جب اس کا یہ بیٹا نکودارخان بادشاہ بنا تو اس نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام احمد خان رکھا۔ پھر اس کے جانشینوں میں غازان خان اسلام لایاتو اس کے ساتھ دس ہزار تاتاری بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور اسلام کو ایران کا شاہی مذہب قرار دیا گیا۔ تاتاریوں کے اسلام لانے سے مسلمانوں کی بڑی دھاک بیٹھ گئی ۔ مغلیہ خاندان نے جو تاتاریوں کی نسل سے تھے، ہندستان میں مسلم عظمت و سطوت کے ان مٹ نشانات یادگار چھوڑے:’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ کا اشارہ اسی طرف ہے۔ ۵۔مسلمانوں پر جو قیامتیں ٹوٹ رہی ہیں، وہ ایک طرف ان کے ایمان کی آزمایش ہے تو دوسر ی طرف ان کے جذبۂ عمل کے لیے مہمیز۔ یہ مصائب و آفات انھیں خوابِ غفلت سے جھنجوڑنے کا باعث ہوں گے اور وہ ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ دشمن کے مقابلِ صف آرا ہوں گے۔ ان وجوہات کی بنا پر اقبال مسلمانوں کے درخشاں مستقبل کے بارے میں بہت پرامید ہیں ۔ کہتے ہیں: رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنّابی ہے یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے مسلمان عالم مایوسی میں سر چھپاتا پھرتا تھا مگر اقبال کے نزدیک یہ ہمت ہار کر بیٹھ رہنے کا نہیں ، میدانِ عمل میں نکلنے کا وقت ہے۔ وہ مسلمانوں کو ان کے اہم فرض کی طرف متوجّہ کرتے ہیں: وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے