Actions

٭فلسفۂ حیات و ممات

From IQBAL

والدہ سے وابستہ پرانی باتوں کو یاد کرتے ہوئے شاعر کو تقدیر اور موت کی بے رحمی کا خیال آتا ہے۔ چنانچہ (چھٹے بند سے) سلسلۂ خیال زندگی اور موت کے فلسفے کی طر ف مڑ جاتا ہے ۔ مرثیے کے آغاز میں بھی اقبال نے فلسفۂ جبر و قدر پر اظہارِ خیال کیا تھا، مگر یہاں موت اور تقدیر کے جبر کا احساس نسبتاً شدید اور تلخ ہے۔ کہتے ہیں دنیا میں جبر و مشیت کا پھندا اس قدر شدید ہے کہ کسی چیز کو اس سے مفر نہیں۔ قدرت نے انسانوں کی تباہی کے لیے مختلف عناصر ( بجلیاں، زلزلے، آلام و مصائب، قحط وغیرہ) کو مامور رکھا ہے۔ ویرانہ ہو یا گلشن، محل ہو یا جھونپڑی وہ اپنا کام کرجاتے ہیں۔ بے چارہ انسان اس پر آہ بھرنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے نہ مجالِ شکوہ اور نہ طاقت ِ گفتار، غرض زندگی گلا گھونٹ دینے والے طوق کے سوا کچھ نہیں ۔ لیکن تصو یر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کائنات کے اندر موت کے مقابلے میں زندگی کا بھی بہر حال ایک مقام اور مرتبہ ہے۔ دنیا کی ساری رنگینیاں اور رعنائیاں، زندگی اور موت کی کشمکش سے ہی قائم ہیں، چنانچہ بند نمبر ۷ میں اقبال اسی دوسرے رخ کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جبر و قدر کی یہ حکمرانی دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے، موت مستقلاً زندگی پر غالب نہیں آ سکتی کیونکہ اگر موت کو زندگی پر برتری ہوتی تو پھر زندگی کا نام و نشان بھی نظر نہ آتا اور یہ کارخانۂ کائنات نہ چل سکتا۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اصلاً زندگی اس قدر محبوب ہے کہ اس نے زندگی کو مغلوب نہیں ، غالب بنا یا ہے۔ انسان کو زندگی کے مقابلے میں موت اس لیے غالب نظر آتی ہے کہ اس کی ظاہر بین نگاہیں اصل حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں۔ موت تو ایک عارضی کیفیت کا نام ہے، جس طرح انسان لمحہ بھر کے لیے نیند کرکے پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے: موت اک ماندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر ( میرؔ) آٹھویں بند کے آخر میں اقبال دنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی ناپایداری کی ایک توجیہ پیش کرتے ہیں ۔ ان کے خیال میں فطرت ایک بااختیار خلّاق کی حیثیت رکھتی ہے جسے بناو اور بگاڑ پر پوری قدر ت حاصل ہے۔ فطرت کو خوب سے خوب تر کی جستجو رہتی ہے ، اس لیے وہ اپنے بنائے ہوئے نقوش خود ہی مٹاتی رہتی ہے تاکہ اس تخریب سے تعمیر کا ایک نیا اور مطلوبہ پہلو برآمد ہو سکے۔ اس طرح موت اور تخریب کا جواز یہ ہے کہ اس سے حیات ِنو کی ایک بہتر بنیاد فراہم ہو تی ہے۔ اوپر شاعر نے موت کو ایک عارضی کیفیت قرار دیا ہے، اب اس سلسلۂ خیال کو ایک مثال کے ذریعہ آگے بڑ ھاتے ہیں ، نویں بند کو چھوڑ کر دسویں بند میں اقبال نے ایک بیج کی مثال دی ہے جو تہِ خاک دبا پڑا ہے ۔ ظاہر ی طور پر وہ مردہ حالت میں ہے مگر درحقیقت وہ ایک نئی اور بہتر شکل میں زمین پر نمودار ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس مردہ دانے میں بھی زندگی کا شعلہ مستور ہے اور اسی کے بل بوتے پر وہ زندگی کی تجدید میں مصروف ہے، لہٰذا زندگی کو موت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ فلسفۂ حیات و ممات سے متعلق یہ سلسلۂ خیال دسویں بند کے اختتام تک چلتا ہے۔