Actions

٭غم و اندوہ کا ردّ ِ عمل

From IQBAL

گیارھویں بند میں اقبال نے انسانی قلب و ذہن پر رنج و غم کے ردّ ِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ کہتے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ موت کے زہر کا کوئی تریاق نہیں۔ البتہ زخمِ فرقت کے لیے وقت مرہمِ شفا کی حیثیت رکھتا ہے مگر اقبال کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ ان کاذاتی تجربہ یہ ہے کہ جب انسان کسی شدید مصیبت سے دوچار ہو اور مصیبت بھی نا گہاں ہو تو صبر و ضبط انسان کے اختیار میں نہیں رہتا۔ اس کی آنکھیں خون کا سرشک آباد بن جاتی ہیں۔ البتہ ایسے عالم میں انسان کے لیے تسکین کا صرف ایک پہلو ہوتا ہے ( اور یہ وہی پہلو ہے جس کی طر ف اقبال نے نظم کے آغاز میں ذکر کیا تھا ) کہ موت کسی دائمی کیفیت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عارضی حالت ہے۔ انسان مرتا ہے لیکن فنا کبھی نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے۔ تسکین کا دوسرا پہلو یہ ہے جس طرح ہر رات کی سحر ہوتی ہے ( اور صبح کے وقت طائرانِ سرمست کی نوا نیند کی ماتی دنیا کو عروسِ زندگی سے ہم کنار کردیتی ہے ) اسی طرح موت کے وقفۂ ماندگی کے بعد انسان پھر بیدار ہو کر اٹھ کھڑا ہوگا۔ یہ اس کی زندگی کی نئی سحر ہوگی اوراس طرح وہ ایک نئے دور کا آغاز کرے گا… ( یہ بات بارھویں بند کے آخر تک بیان ہوئی ہے۔)