Actions

٭سرمایہ داری

From IQBAL

یورپ میں سرمایہ داری.ٗ تحریک نشأت ثانیہ ‘ لبرل ازم اور روشن خیالی کے پس منظر میں ابھر ی تھی۔ مگر سرمایہ داروں نے اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دیا کہ ان کی روشن خیالی دراصل خود غرضی تھی۔ انھوں نے صنعتی انقلاب کے فوائد لوٹنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ معاشیات کا باوا آدم، آدم سمتھ آزاد معیشت کا سب سے بڑا وکیل تھا مگر اسے بھی تسلیم کرنا پڑ ا ۔ کہ کاروباری لوگ جب کہیں باہم جمع ہوتے ہیں تو ان کی صحبت پبلک کے خلاف سازش پر اور قیمتیں چڑ ھانے کے لیے کسی قرارداد ہی پر ختم ہوتی ہیں۔حد یہ ہے کہ تقریبات میں بھی مل بیٹھنے کا جو موقع مل جاتا ہے ‘ اس کو بھی یہ حضرات اس جرم سے خالی نہیں جانے دیتے۔

صنعتی انقلاب اور مشینوں کے فروغ سے دستی کاری گری کا خاتمہ ہوا اوربے روز گاری بڑھی۔’’بے روزگاری کسی ایک مسئلے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ انسان کی مادّی ‘ روحانی ‘ اخلاقی اور تمدنی زندگی کے بے شمار پیچیدہ مسائل کا مورثِ اعلیٰ ہے‘‘۔ اس بے روز گاری کے سبب سودا چکانے کی ساری طاقت سرمایہ دار کے ہاتھوں میں جمع ہو گئی۔ افلاس اور خستہ حالی سے تنگ آکر مزدوروںکو کم اجرتوں پر بہت زیادہ وقت اور محنت کرنے پر راضی ہونا پڑا۔ وہ جانوروں کی طرح کام کرنے لگے۔ تنگ و تاریک مکانات میں رہنے لگے۔ ان کی صحتیں تباہ اور ذہنیتیں پست ہو گئیں۔ اخلاق بری طرح بگڑنے لگے۔ ( اسلام اور جدید معاشی نظریات: ص ۲۹- ۳۳)

اقبال کہتے ہیں کہ سرمایہ دار، صدیوں سے مزدور کا استحصال کرتا چلا آرہا ہے۔ ’’ساحرِالموط‘‘ کا اشارہ حسن بن صباح ( م: ۱۱۲۴ئ) کی طرف ہے۔ یہاں اقبال واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک سرمایہ دار بھی حسن بن صباح ہی کی طرح مزدور کا استحصال کرتا ہے اور مزدور کے لیے اس کے ظلم و استحصال سے بچ نکلنا اتنا ہی مشکل ہے جس قدر کسی باطنی یافدائی کے لیے حسن بن صباح کے چنگل سے نکل بھاگنا۔ یہاں اقبالؔ نے مزدور کی سادگی اور سرمایہ دار کی مکاری او ر حیلہ سازی کی طرف بلیغ اشارے کیے ہیں۔ اب نانِ جویں کو ترسنے والا مزدور مظلومیت کی تصویر بنا مایوسی کے عالم میں کھڑا ہے ، اقبالؔ اسے نوید سناتے ہیں: اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے اور: آفتابِ تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا یہاں اقبال کا اشارہ ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کی طرف ہے۔ چونکہ دعویٰ یہ کیا جارہا تھا کہ اب روس میں مزدوروں کی حکومت قائم ہو گئی ہے، ا س لیے اقبال مزدور سے مخاطب ہوتے ہیں کہ ’’ تیرے دور‘‘ کا آغاز ہو چکاہے۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام مسلط تھا اور ہر جگہ مزدوروں کا استحصال ہو رہا تھا، اس لیے روس میں’’ مزدوروں کی حکومت‘‘ قائم ہونے کا تاثر پھیلا اور سرمایہ داری اور مغربی سامراج کے جبر و استبدادکے مقابلے میں روسی انقلاب کو بالعموم سراہا گیا۔ اقبال نے بھی اسی تاثر کے تحت مزدور کو ’’آفتاب تازہ ‘‘ کی نوید سنائی، تاہم ابھی روسی اشتراکیت کے حقیقی خدوخال سامنے نہیں آئے تھے اور بعد میں جب اس کے بھیانک چہر ے سے نقاب ہٹی تو اقبال یہ کہنے پر مجبور ہوئے: زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی بنابریں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ اقبال نے روسی انقلاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ مستقبل میں یہ انقلاب مزدوروں کے لیے مفید ثابت ہوگا مگر یہ کہنا درست نہیں ( جیسا کہ اقبال کے بعض مفسّروں کو غلط فہمی ہوئی ہے) کہ یہاں اقبال نے اشتراکی انقلاب کی تحسین و توصیف کی ہے یا انھوں نے مزدوروں کو اشتراکیت اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ ( یوں بھی یہ بات اقبال کے بنیادی افکا ر سے مطابقت نہیں رکھتی۔ معاً بعد اگلی ہی نظم میں اقبال نے ’’ طلوعِ اشتراکیت‘‘ کی نہیں ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کی نویدسنائی ہے۔)