Actions

والدہ کے لیے دعا

From IQBAL

نظم خاتمے کے قریب ہے، سلسلۂ خیال والدہ مرحومہ کی جانب مڑ جاتا ہے ۔ ابتدا میں شاعر نے والدہ کی رحلت پر جس بے قراری ، اضطراب او ر بے چینی کا اظہار کیا، وہ والدہ سے محبت رکھنے والے ایک مغموم و متأسف بچے کے درد و کرب اور تڑپ کا بے تابانہ اظہار تھا۔ لیکن فلسفۂ حیات و ممات پر غورو خوض کے بعد، شاعر نے جو نتیجہ اخذ کیا، وہ ایک پختہ کار مسلمان کی سوچ ہے۔ اقبال نے والدہ کی جدائی کے دردو غم کو اپنی ذات میں اسی طرح سمو لیا ہے کہ اب جدائی ایک مقدس اور پاکیزہ کیفیت بن گئی ہے: جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے یوں کہنا چاہئے کہ اقبال نے غم کا ترفّع ( sublimation) حاصل کر لیا ہے ۔ وہ والدہ کی وفات اور جدائی پر اس لیے بھی متأسف نہیں کہ موت کے بعد آخرت بھی زندگی ہی کی ایک شکل ہے۔ بلکہ حقیقی اور ابدی زندگی تو وہی ہے۔ آخری تین اشعار دعائیہ ہیں۔ اقبال دعا گو ہیں کہ جس طرح زندگی میں والدۂ ماجدہ ایک مہتاب کی مانند تھی جن سے سب لوگ اکتسابِ فیض کرتے تھے ، خدا کرے کہ ان کی قبر بھی نور سے معمور ہو اور خدا ان کی لحد پر بھی اپنی رحمت کا نزول فرماتا رہے۔ ’’ سبزۂ نورُستہ ‘‘ (تروتازہ اور نیا اگا ہوا سبزہ )خداکی رحمت کی علامت ہے۔