Actions

والدہ مرحومہ کی یاد میں

From IQBAL

والدہ مرحومہ کی یاد میں

ذرہ ذرہ دہر کا زندانی تقدیر ہے
پردئہ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے

آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں
انجم سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں

ہے شکت انجام غنچے کا سبو گلزار میں
سبزہ و گل بھی ہیں مجبور نمو گلزار میں

نغمہ بلبل ہو یا آواز خاموش ضمیر
ہے اسی زنجیر عالم گیر میں ہر شے اسیر

آنکھ پر ہوتا ہے جب یہ سر مجبوری عیاں
خشک ہو جاتا ہے دل میں اشک کا سیل رواں

قلب انسانی میں رقص عیش و غم رہتا نہیں
نغمہ رہ جاتا ہے، لطف زیروبم رہتا نہیں

علم و حکمت رہزن سامان اشک و آہ ہے
یعنی اک الماس کا ٹکڑا دل آگاہ ہے

گرچہ میرے باغ میں شبنم کی شادابی نہیں
آنکھ میری مایہ دار اشک عنابی نہیں

جانتا ہوں آہ، میں آلام انسانی کا راز
ہے نوائے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز

میرے لب پر قصہ نیرنگی دوراں نہیں
دل مرا حیراں نہیں، خنداں نہیں، گریاں نہیں

پر تری تصویر قاصد گریہء پیہم کی ہے
آہ! یہ تردید میری حکمت محکم کی ہے

گریہ سرشار سے بنیاد جاں پائندہ ہے
درد کے عرفاں سے عقل سنگدل شرمندہ ہے

موج دود آہ سے آئینہ ہے روشن مرا
گنج آب آورد سے معمور ہے دامن مرا

حیرتی ہوں میں تری تصویر کے اعجاز کا
رخ بدل ڈالا ہے جس نے وقت کی پرواز کا

رفتہ و حاضر کو گویا پا بپا اس نے کیا
عہد طفلی سے مجھے پھر آشنا اس نے کیا

جب ترے دامن میں پلتی تھی وہ جان ناتواں
بات سے اچھی طرح محرم نہ تھی جس کی زباں

اور اب چرچے ہیں جس کی شوخی گفتار کے
بے بہا موتی ہیں جس کی چشم گوہربار کے

علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور
دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور

زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبت مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم

بے تکلف خندہ زن ہیں، فکر سے آزاد ہیں
پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں

کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار

خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آئوں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو یاد میں آئوں گا!

تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا

دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دیں و دنیا کا سبق تیری حیات

عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی

وہ جواں، قامت میں ہے جو صورت سرو بلند
تیری خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند

کاروبار زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا
وہ محبت میں تری تصویر، وہ بازو مرا

تجھ کو مثل طفلک بے دست و پا روتا ہے وہ
صبر سے ناآشنا صبح و مسا روتا ہے وہ

تخم جس کا تو ہماری کشت جاں میں بو گئی
شرکت غم سے وہ الفت اور محکم ہوگئی

آہ! یہ دنیا، یہ ماتم خانہ برنا و پیر
آدمی ہے کس طلسم دوش و فردا میں اسیر!

کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت

زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دختران مادر ایام ہیں
!

کلبہ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت

موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں

نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے
زندگانی کیا ہے، اک طوق گلو افشار ہے!

قافلے میں غیر فریاد درا کچھ بھی نہیں
اک متاع دیدئہ تر کے سوا کچھ بھی نہیں

ختم ہو جائے گا لیکن امتحاں کا دور بھی
ہیں پس نہ پردئہ گردوں ابھی اور بھی

سینہ چاک اس گلستاں میں لالہ و گل ہیں تو کیا
نالہ و فریاد پر مجبور بلبل ہیں تو کیا

جھاڑیاں، جن کے قفس میں قید ہے آہ خزاں
سبز کر دے گی انھیں باد بہار جاوداں

خفتہ خاک پے سپر میں ہے شرار اپنا تو کیا
عارضی محمل ہے یہ مشت غبار اپنا تو کیا

زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں
ٹوٹنا جس کا مقدر ہو یہ وہ گوہر نہیں

زندگی محبوب ایسی دیدئہ قدرت میں ہے
ذوق حفظ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے

موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات
عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظام کائنات

ہے اگر ارزاں تو یہ سمجھو اجل کچھ بھی نہیں
جس طرح سونے سے جینے میں خلل کچھ بھی نہیں

آہ غافل! موت کا راز نہاں کچھ اور ہے
نقش کی ناپائداری سے عیاں کچھ اور ہے

جنت نظارہ ہے نقش ہوا بالائے آب
موج مضطر توڑ کر تعمیر کرتی ہے حباب

موج کے دامن میں پھر اس کو چھپا دیتی ہے یہ
کتنی بیدردی سے نقش اپنا مٹا دیتی ہے یہ

پھر نہ کر سکتی حباب اپنا اگر پیدا ہوا
توڑنے میں اس کے یوں ہوتی نہ بے پروا ہوا

اس روش کا کیا اثر ہے ہےئت تعمیر پر
یہ تو حجت ہے ہوا کی قوت تعمیر پر

فطرت ہستی شہید آرزو رہتی نہ ہو
خوب تر پیکر کی اس کو جستجو رہتی نہ ہو

آہ سیماب پریشاں، انجم گردوں فروز
شوخ یہ چنگاریاں، ممنون شب ہے جن کا سوز

عقل جس سے سر بہ زانو ہے وہ مدت ان کی ہے
سرگزشت نوع انساں ایک ساعت ان کی ہے

پھر یہ انساں، آں سوئے افلاک ہے جس کی نظر
قدسیوں سے بھی مقاصد میں ہے جو پاکیزہ تر

جو مثال شمع روشن محفل قدرت میں ہے
آسماں اک نقطہ جس کی وسعت فطرت میں ہے

جس کی نادانی صداقت کے لیے بیتاب ہے
جس کا ناخن ساز ہستی کے لیے مضراب ہے

شعلہ یہ کمتر ہے گردوں کے شراروں سے بھی کیا
کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا

تخم گل کی آنکھ زیر خاک بھی بے خواب ہے
کس قدر نشوونما کے واسطے بے تاب ہے

زندگی کا شعلہ اس دانے میں جو مستور ہے
خود نمائی، خودفزائی کے لیے مجبور ہے

سردی مرقد سے بھی افسردہ ہو سکتا نہیں
خاک میں دب کر بھی اپنا سوز کھو سکتا نہیں

پھول بن کر اپنی تربت سے نکل آتا ہے یہ
موت سے گویا قبائے زندگی پاتا ہے یہ

ہے لحد اس قوت آشفتہ کی شیرازہ بند
ڈالتی ہے گردن گردوں میں جو اپنی کمند

موت، تجدید مذاق زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے

خوگر پرواز کو پرواز میں ڈر کچھ نہیں
موت اس گلشن میں جز سنجیدن پر کچھ نہیں

کہتے ہیں اہل جہاں درد اجل ہے لا دوا
زخم فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا

دل مگر، غم مرنے والوں کا جہاں آباد ہے
حلقہ زنجیر صبح و شام سے آزاد ہے

وقت کے افسوں سے تھمتا نالئہ ماتم نہیں
وقت زخم تیغ فرقت کا کوئی مرہم نہیں