Actions

نفسیات

From IQBAL

(۱)’’ ینگ کا خیال درست ہے کہ مذہب کی ماہیت تجزیاتی نفسیات کے دائرہ عمل سے باہر ہے‘‘۔ ( ساتواں خطبہ)

سوئٹزز لینڈ کے ایک معروف نفسیات دان کارل ینگ نے شروع شروع میں ایک اور ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ(۱۹۳۹۔۱۸۵۶ئ) کے ساتھ مل کر تجزیاتی نفسیات کی بنیاد ڈالی اور بعد ازاں ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ کے تصور جنسیات کو چھوڑ کر بروں بینی اور اندروں بینی کو دو نفسیاتی قسمیں قرار دیا۔ینگ نے کہا تھا کہ ہم نفسیات کی مدد سے آرٹ اور مذہب کی ماہیت کا سراغ لگانے سے قاصر ہیں اگر چہ ہم آرٹ اور مذہب کی خارجی شکل اور علامتی مظاہر کو بیان کرسکتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں ینگ کا یہ نظریہ مذہب اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ تجزیاتی نفسیات‘ مذہبی واردات اور صوفیانہ تجربات کی حقیقت کو نہیں جان سکتی۔علامہ اقبالؒ سائنس کے خارجی تجربات و مشاہدات کی طرح مذہبی اور صوفیانہ تجربات کو بھی حقیقی‘ اہم‘قابل قدر‘ مفید اور لائقِ مطالعہ خیال کرتے ہوئے اپنی مشہور انگریزی کتاب’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ کے آخری خطبہ ’’کیا مذہب ممکن ہے؟‘‘ میں کہتے ہیں:

"These experiences are perfectly natural, like our normal experience--If an outlook beyond physics is possible we must courageously face the possibility, even though it may disturb or tend to modify our normal ways of life and thought. The interests of truth require that we must abandon our present attitude." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, pp.189-190)

علامہ اقبالؒ نے اس مختصر اقتباس میں مذہبی اور صوفیانہ تجربات اور قلبی واردات کی برتری اور موجودہ تجزیاتی نفسیات کی کم مائیگی کو بیان کیا ہے۔مذہبی واردات کو وہ قدیم اور مفید خیال کرتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ دنیا کی تمام قوتوں میں صوفیانہ لڑیچر کا وجود اس کی اہمیت،حقانیت اور افادیت کو ظاہر کرتا ہے۔جس طرح سائنس دان اپنے خارجی تجربات کی صداقت کا خیال رکھتا ہے اسی طرح اہل مذہب اور صوفیا بھی اپنے روحانی مکاشفات کی صداقت کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہیں۔بعض نفسیات دان مذہبی حقائق اور باطنی کیفیات کو واہمہ کی پیداوار‘ لاشعور میں دبے ہوئے جذبات اور خیالات کی نمود اور دماغی اختلال قرار دیتے ہین۔علامہ اقبالؒ کو اس نظریے سے اتفاق نہیں کیونکہ وہ معاشرتی، روحانی،اخلاقی اور نفسیاتی دنیا میں انقلاب عظیم برپا کرنے والے مذہبی تجربات اور پیغمبرانہ طریق عمل کو دماغی اختلال اور اعصابی تنائو کا نتیجہ نہیں سمجھتے۔وہ اپنی ایک مختصر نظم’’ ماہر نفسیات سے‘‘ میں نفسیات دانوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں۔

؎ جر ات ہے تو افکار کی دنیا سے گزر جا ہیں بحر خودی میں ابھی پوشیدہ جزیرے کھلتے نہیں اس قلزمِ خاموش کے اسرار جب تک تو اسے ضرب کلیمی سے نہ چیرے (کلیات اقبال ،ص ۴۵۹)

علامہ اقبالؒ کی رائے میں نفسیات دانوں کو اپنی کم عملی کا اعتراف کرنا چاہیے نہ کہ وہ اُن نادیدنی حقائق کے وجود سے ہی انکار کرین یا اُن کے بارے میں غلط نظریات قائم کریں۔ اُنھوں نے بجا ہی کہا ہے:ع: نگاہ چاہیے اسرارِ لااِلٰہ کے لیے۔اپنی بات کی وضاحت کے سلسلے میں اُنھوں نے رسول کریمؐ کی مثال دی ہے اور کہا ہے کہ ہادی اعظم ؐ کی تعلیمات نے غلاموں کو دنیاکا راہنما بنایا اور کروڑوں انسانوں کے دل ودماغ میں ہدایت کی شمع جلا کر بہترین انسان بننے میں مدد دی ہے۔کیا ایسے عظیم اور مثالی انسان کی شخصیت کو کم مایہ نفسیات دانوں کے ناقص پیمانوں سے ناپا جاسکتا ہے؟ہرگز نہیں۔آخر میں اُنکے یہ الفاظ دلچسپی سے خالی نہیں ہوں گے۔وہ فرماتے ہیں:۔

؎ضمیرِ اُمتّاں را می کند پاک کلیمے یا حکمیے نے نوازے

؎ من نمے دانم چہ افسوں می کند       روح  را  در تن دگرگوں می کند

(کلیات اقبال ، ص۸۰۹) (۲)’’جدید نفسیات نے ابھی تک مذہبی وجدان کی بیرونی حد کو بھی نہیں چھوا۔بنابریں اگر نفسیات کو انسانوں کی زندگی کے لیے حقیقی مفہوم کا حامل ہونا ہے تو اُسے ہمارے زمانے کے مزاج کے مطابق نئے نئے آزادانہ طریقے اور ذرائع اختیار کرنے چاہئیں‘‘۔ ( ساتواں خطبہ)

علامہ اقبالؒ نے اس سے پیشتر ایک مشہور ماہر نفسیات ینگ کا نظریہ مذہب بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جدید نفسیات نے ابھی تک مذہبی تجربات کی کنُہ سے واقفیت حاصل نہیں کی۔وہ اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جدید نفسیات کو دور حاضر کے مزاج کے مطابق نئے اور زیادہ موثر طریقہ ہائے تحقیق استعمال کرنے چاہئیں۔ان اہم اُمور کی یہاں قدرے  وضاحت کی جاتی ہے:

(الف) جدید نفسیات نے تاہنوز مذہبی وجدان اور اس کے باطنی حقائق کی بیرونی حد کو بھی نہیں چھوا۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ علم النفس کا ہماری نفسی کیفیات اور ذہنی واردات کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔نفسیات دان اس علم کی روشنی میں ہمارے فکری میلانات،باطنی تصورات اور اُن کے خارجی اثرات کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں نفسیات نے ابھی تک مذہبی وجدان یعنی ہماری باطنی واردات اور صوفیانہ تجربات کی مکمل حقیقت کا سراغ نہیں لگایا۔ اس ضمن میں اُنھوں نے سترہویں صدی کے ایک عظیم مذہبی مصلح اور صوفی شیخ احمد سرہندیؒ کے بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں شیخ احمد سرہندیؒ نے کہا تھا کہ روحانی اور قلبی ترقی کے کئی مدارج ہوتے ہیں جن کا تعلق ’’عالم امرِ‘‘ سے ہوتا ہے۔ یہ روحانی مراحل روح‘سِّر حنفی اور سِّرِ احنفی ہیں۔اُنھیں طے کرنے کے لیے طالبِ حقیقت درجہ بدرجہ اسمائے ایزدی‘صفاتِ خداوندی اور آخرمیں ذاتِ الہٰی کی تجلّیات حاصل کرتا جاتا ہے۔علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ نفسیات نے ابھی روح اور قلب کے اُن مراتب ومراحل کی حقیقت کو جاننا ہے جو اس کی سرحد سے بہت پرے ہیں۔ (ب) نفسیات کو ہمارے زمانے کے مزاج اور انسانی زندگی کے حقیقی مفہوم کی وضاحت کے لیے اب نئے اور آزادانہ نوعیت کے طریقہ ہائے تحقیق کی تلاش جاری رکھنی چاہیے۔علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال نفسیات کے موجودہ طریقوں سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں۔ (ج) وہ مذہب کو جنس،دماغی اختراع اور فراریت کی پیداوار قرار دینے کے حق میں نہیں۔وہ تو جنس کے ضبط کو خودی کا اوّلین مرحلہ کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے نفسیات خودی یعنی معرفت نفس کے کافی اسرار ورموز سے ناواقف ہے۔وہ خودی کے چند پہلوئوںکو بیان کرکے اسے نفسیاتی تجزیے سے بالا تر قرار دیتے ہیں مثلاً: ؎ پیکر ہستی زآثارِ خودی است ہرچہ می بینی ز اسرارِ خودی است

(کلیات اقبال،ص۱۲)
    ؎ صد جہاں  پوشیدہ  اندر  ذاتِ  اُو          (کلیات اقبال،ص۱۷)

؎ زمین وآسمان وکرسی وعرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی (کلیات اقبال،ص۳۷۵)

علامہ اقبالؒ کی نظر میں مذہب کا مقصد انسانی خودی کا ذاتِ خداندوی سے گہرا تعلق جوڑ کر اسے مستحکم بنانا ہے۔جب خودی یہ مقام حاصل کرلیتی ہے تو اسے اپنی زد میں ساری خدائی(زمین وآسمان وکرسی وعرش) دکھائی دیتی ہے۔ یہ بصیرت حاصل کرنے کے لیے محض عقل کافی نہیں ہوتی بلکہ جذبہ عشقی یعنی وجدان کو اپنا رہنما بنانا پڑتا ہے۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:۔
 ؎ خرد سے راہرو  روشن بصر ہے     خرد کیا ہے؟ چراغ رہگذر ہے
درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا      چراغِ رہگذر کو  کیا خبر ہے؟

(کلیات اقبال،ص۳۷۷)