Actions

نظم کا دھیما لہجہ

From IQBAL

بحیثیت مجموعی نظم کا لہجہ نرم ‘ ملائم اور دھیما ہے۔ پہلے بند کا سکوت افزا منظر اور الفاظ کی نرمی‘ لہجے کا دھیما پن ظاہر کر رہی ہے۔ اس حصے میں شاعر کے محتاط لہجے سے گویا’’ سرھانے میرؔ کے آہستہ بولو‘‘ والی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اس کے بعد کم و بیش پوری نظم کے لہجے میں نرمی اور دھیما پن غالب ہے۔ اگر کہیں لا شعوری طور پر پُرجوش کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے تو (ہرچند کہ اس کے معقول اسباب ہوتے ہیں) شاعر اسے دوبارہ مدھم کر دیتا ہے‘ مثلاً: دوسرے ہی بند میں جہاں شاعر‘ خضر کے سامنے مختلف سوالات پیش کر رہا ہے‘ اس کے لہجے سے شدت اور جوش جھلکتا ہے: فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ ناو نوش _______ بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی خاک و خوں میں مل رہاہے ترکمانِ سخت کوش یہاں شاعر جن واقعات کی طرف اشارہ کر رہا ہے، وہ اس کے لیے شدید رنج و غم اور اضطراب کا باعث ہیں‘ اس لیے اس کے لب ولہجے میں قدرے گرمی و جوش کا پیدا ہونا فطری ہے ۔ پھر اس گرمی و جوش میں سوز وگداز بھی شامل ہے۔ ’’ صحر ا نوردی‘‘ کے حصے میں لہجہ دھیما اور نرم ہے۔’’ زندگی‘‘ چونکہ شاعر کے نزدیک’’ گردشِ پیہم‘‘ اور ’’ پیہم دواں ہر دم جواں‘‘ ہے جس میں انسان کو ’’ تیشہ و سنگِ گراں‘‘ سے سابقہ پیش آتا ہے اور اس کی ’’ قو ّتِ تسخیر‘‘ کی آزمایش بھی ہوتی ہے‘ اس لیے نظم کے اس حصے میں قدرے جوش و خروش پیدا ہو گیا ہے مگر دوسرے ہی بند میں شاعر نے : تا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرے اور  : سوے گردوں نالہ ٔ شب گیر کا بھیجے سفیر رات کے تاروں میں اپنے رازداں پیدا کرے کہہ کر پُرجوش لب و لہجے (Tone)کو مدھم کر دیا ہے۔ یہ مدّ و جزر اور اتار چڑھاؤ نظم کے باقی حصوں میں بھی موجودہے ۔ بحیثیت مجموعی نظم پر دھیما پن غالب ہے۔ اختتام بھی ناصحانہ ہے اور نصیحت نرم لہجے میں ہی کی جاتی ہے۔ لہجے کی نرمی اور دھیمے پن کا سبب ’’ خضر راہ‘‘ کے کرداروں ( شاعر اور خضر )کی حیثیت اور ان کا مقام و مرتبہ بھی ہے۔ شاعر کی حیثیت ایسے جویاے حق انسان کی ہے جو کائنات کے ان اسرار و رموز اور بین الاقوامی مسائل اور پیچیدگیوں کا حل چاہتا ہے جو اس کے ذہن کو الجھائے ہوئے ہیں۔ گویا خضر کے سامنے اس کی حیثیت ایک طالب علم کی ہے اور ظاہر ہے کہ طالب علم کا لہجہ جوش و خروش اور تندی و تیزی کا نہیں ‘ بلکہ نرمی اور ملائمت کا اور مؤدبانہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف خضرؑ ایک صاحب علم اور صاحب نظر بزرگ ہیں۔ اس لیے ’’ اسرارِازل‘‘ کے لہجے میں نرمی او ر دھیما پن ‘ مقامِِ استاد کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ جہاں ان کا لہجہ قدرے پرجوش ہوتا ہے ‘ وہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک استاد کوئی عالمگیرسچائی بیان کر رہا ہوتو دلائل و براہین کے ساتھ اس کے جذبات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ’’ خضر راہ‘‘ میں لہجے کی نرمی اور دھیمے پن کے ساتھ بیان کی متانت اور سنجیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ اقبال نے سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں وضاحت کی ہے کہ لہجے میں دھیمے پن اور بیان میں متانت کا سبب خضر کا وہ کردار ہے جس کا تصو ّر ہم سورۃ الکہف کے مطالعے سے حاصل کرتے ہیں ۔ (اقبال نامہ‘ اول: ص ۱۱۹)