Actions

مغرب سے مایوسی

From IQBAL

عالمِ اسلام خصوصاً ترکی کے حالات سے اقبال کی نظر دوسرے یورپی ملکوں کی طرف جاتی ہے‘ جہاں دنیا کی پہلی خوفناک جنگ لڑی گئی۔ اس کا سبب مختلف یورپی اقوام کی خودغرضیاں‘ مفاد پرستیاں اور نوآبادیاتی حسد اور ہوس تھی۔ اس جنگ نے تباہی و بربادی ‘ خون آشامی اور ہلاکت آفرینی کا فقید المثال نمونہ پیش کیا۔ اقبال کا حساس اور درد مند دل انسان کی مظلومیت پر تڑپ اٹھا۔ چنانچہ اس نے آٹھویں بند کے پہلے چار شعروں میں مختلف پہلوؤں سے مغرب پر تنقید کی ہے: ۱۔ یورپ کا نو آبادیاتی نظام شہریاری، جس کے ذریعے یورپ نے اپنے سامراجی نظام کو مستحکم کیا‘ ایک لعنت ہے۔ ۲۔ یورپ کا سرمایہ دارانہ نظام دراصل سامراجیت کی بدترین شکل ہے۔ ۳۔ مغرب کی جدید تہذیب کی ظاہر ی چمک دمک جھوٹے نگوں کی طرح اور سراب کی مانند ہے۔ ۴۔ مغربی عقلیت نے سائنسی ترقی کی مگرنتیجہ دنیا کی عالم گیر تباہی کی شکل میں سامنے آیا اور روحانیت بھی ختم ہو گئی۔ مغرب کا نو آبادیاتی نظام ہو یا سرمایہ داری‘ مغربی تہذیب ہو یا عقلیت… بحیثیت مجموعی مغرب‘ اقبال کی تنقید کا ہدف ہے۔ وہ مغرب سے کس حد تک مایوس تھے‘ اس کا اندازہ ان کے یکم جنوری ۱۹۳۸ء کے ریڈیائی پیغام سے ہوتا ہے‘ کہتے ہیں: ’’ ملوکیت کے جبر و استبدا نے جمہوریت ‘ قومیّت‘ اشتراکیت‘ فسطائیت‘ اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑ ھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑ میں دنیا بھر میں قدرِ حریت اور شرفِ انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہور رہی ہے کہ تاریخِ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ جن نام نہاد مدبروں کو انسانوں کی قیادت اور حکومت سپرد کی گئی ہے ‘ وہ خون ریزی ‘ سفاکی اور [استبداد] کے عفریت ثابت ہوئے۔ انھوں نے ملوکیت اور استعمار کے جوش میں لاکھوں کروڑوں مظلوم بندگانِ خدا کو ہلاک و پامال کر ڈالا۔ انھوں نے کمزور قوموں پر تسلط حاصل کرنے کے بعد ان کے اخلاق‘ ان کے مذاہب ‘ ان کی معاشرتی روایات‘ ان کے ادب اور ان کے اموال پر دستِ تطاول دراز کیا۔ پھر ان میں تفرقہ ڈال کر ان بد بختوں کو خوں ریزی اور برادر کشی میں مصروف کر دیا‘‘۔ ( حرفِ اقبال: ص۲۱۷۔۲۱۸)