Actions

مسلمان کا کردار۔ اہم خصوصیات

From IQBAL

مسلمان اگر اپنے مرتبے و منصب کا شعوری احساس رکھتا ہے تو پھر ان عظیم ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کے لیے‘ جن کے تصو ّر سے زمین اور پہاڑ لرز گئے تھے اور انھوں نے خلافت کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا‘ مسلمان کو اپنے عمل و کردار میں وہ پختگی اور مضبوطی پیدا کرنا ہوگی ‘ جو اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے ضروری ہے۔ اقبال کے نزدیک مسلمان کو اپنے عمل و کردار کے ذریعے خود کو اس منصب کا اہل ثابت کرنا ہوگا۔ بنیادی طور پر دنیا کی امامت کے لیے صداقت‘ عدالت اور شجاعت کی تین خصوصیات ضروری ہیں۔ مگر خلوصِ عمل اور کردار کی پختگی کے لیے اقبال نے چند اور خصوصیات کو بھی لازمی قرار دیا ہے۔ سب سے پہلی اور ضروری چیز ایمان ہے: گماں آباد ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا _______ جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا _______ جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہے زنجیریں اور: یقیں محکم ‘ عمل پیہم‘ محبت فاتحِ عالم یہاں ’’ یقیں ‘‘ سے مراد ایمان ہے۔ خدا ‘ رسولؐ‘ کتب ِ سماوی‘ جزا و سزا‘ اور ان مبادیات پر ایمان جو اسلام کی اساس ہیں۔ قرآن حکیم کے نزدیک دنیا میں سربلند ی کے لیے ایمان کی شرط لازمی ہے۔وَاَنْتُمْالْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(سورہ آل عمران: ۱۳۹) اورتم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ( صاحب ایمان ) ہو۔ اس ایمان و ایقان کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان میں کردار کی بعض خوبیاں پیدا ہوں ۔ علامّہ اقبال کہتے ہیں کہ’’ جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبارسے اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِکے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا‘ جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا ‘ اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکے گا اور اخو ّت‘ حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندۂ معنی نہ ہو ں گے‘‘۔ (سال نو کا پیغام: مشمولہ: حرف اقبال ،ص۲۱۹ص ۲۲۴۔ ۲۲۵) مسلمانوں کو اپنے کردار میں زورِحیدرؓ ‘ فقرِ بوذرؓ اور صدقِ سلمانی ؓ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ دورِ حاضر کے فتنوں سے نبرد آزما ہونے اور دنیا میں ظلم و استبداد اور چنگیزیت کی بیخ کنی کے لیے ’’سیرتِ فولاد‘‘ کا ہونا ضروری ہے جو صرف انھی صفات کے ذریعے پیدا ہو سکتی ہے۔ مسلمان میں ’’ پرواز شاہین ِ قہستانی‘‘ بھی زورِحید ر کے بغیر نہیں پیدا ہو سکتی ۔ کبھی ’’سیلِ تند رو‘‘ کی ضرورت ہوتی اور کبھی ’’جوے نغمہ خواں‘‘ کی: ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن چوتھا ‘ پانچو اں اور ساتواں بند انھی نکات کی تفسیر ہے کہ اگر مسلمان ذوقِ یقیں‘ محبت فاتحِ عالم اور عمل پیہم کی صفات کو اپنا لے تو پھر ’’ ولایت‘ بادشاہی اور علم ِ اشیا کی جہانگیری‘‘ اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ پھر وہ صرف ایک ’’نگاہ ‘‘سے ایک دنیا کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ وہ پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن سکتا ہے۔ جہادِ زندگانی میں مسلمان کی حیثیت نہ صرف یہ کہ فاتح عالم کی ہوگی ‘ بلکہ یہ انگارۂ خاکی ‘ روح الامیں کی ہمسری کادعویٰ بھی کر سکے گا مگرشرط وہی ہے کہ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ… ورنہ اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌفطرت کی تعزیریں بہت سخت ہیں: ’’حذراپے چیرہ دستاں، سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔‘‘