Actions

محبت

From IQBAL

محبت

عروس شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے
ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذت رم سے

قمر اپنے لباس نو میں بیگانہ سا لگتا تھا
نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئین مسلم سے

ابھی امکاں کے ظلمت خانے سے ابھری ہی تھی دنیا
مذاق زندگی پوشیدہ تھا پہنائے عالم سے

کمال نظم ہستی کی ابھی تھی ابتدا گویا
ہویدا تھی نگینے کی تمنا چشم خاتم سے

سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیاگر تھا
صفا تھی جس کی خاک پا میں بڑھ کر ساغر جم سے

لکھا تھا عرش کے پائے پہ اک اکسیر کا نسخہ
چھپاتے تھے فرشتے جس کو چشم روح آدم سے

نگاہیں تاک میں رہتی تھیں لیکن کیمیاگر کی
وہ اس نسخے کو بڑھ کر جانتا تھا اسم اعظم سے

بڑھا تسبیح خوانی کے بہانے عرش کی جانب
تمنائے دلی آخر بر آئی سعی پیہم سے

پھرایا فکر اجزا نے اسے میدان امکاں میں
چھپے گی کیا کوئی شے بارگاہ حق کے محرم سے

چمک تارے سے مانگی، چاند سے داغ جگر مانگا
اڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلف برہم سے

تڑپ بجلی سے پائی، حور سے پاکیزگی پائی
حرارت لی نفسہائے مسیح ابن مریم سے

ذرا سی پھر ربوبیت سے شان بے نیازی لی
ملک سے عاجزی، افتادگی تقدیر شبنم سے

پھر ان اجزا کو گھولا چشمہء حیواں کے پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرش اعظم سے

مہوس نے یہ پانی ہستی نوخیز پر چھڑکا
گرہ کھولی ہنر نے اس کے گویا کار عالم سے

ہوئی جنبش عیاں، ذروں نے لطف خواب کو چھوڑا
گلے ملنے لگے اٹھ اٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے

خرام ناز پایا آفتابوں نے، ستاروں نے
چٹک غنچوں نے پائی، داغ پائے لالہ زاروں نے