Actions

فکری جائزہ

From IQBAL

موضوع کے اعتبار سے’’ شکوہ‘‘ بارگاہِ الٰہی میں دورِ حاضر کے مسلمانوں کی ایک فریاد ہے کہ ہم تیرے نام لیوا ہونے کے باوجود دنیا میں ذلیل و رسوا ہیںاور یہ شکوہ بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تو ہم ہیں :’’کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی امت میں ہیں‘‘ (آغا حشر کاشمیری )مگر انعامات و نوازشات کی بارش غیر مسلموں پر ہورہی ہے۔ گویا علامّہ اقبالؒ نے اس نظم میں عام مسلمانوں کے لاشعوری احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ معروف دانش ور ،نقاد اور شاعر سلیم احمد(م: ۱۹۸۳ئ) کے الفاظ میں:’’ ایک طرف ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے محبوبؐ کی سب سے چہیتی امت ہیں اور اس لیے خدا کی ساری نعمتوں کی سزاوار، اور دوسری طرف یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ان کا مکمل زوال ہو چکا ہے۔ عقیدے اور حقیقت کے اس ٹکراؤ سے مسلمانوں کا وہ مخصوص المیہ پیدا ہوتا ہے جو ’’ شکوہ‘‘ کاموضوع ہے‘‘۔ (اقبال:ایک شاعر‘ ص ۸۹)اقبال کے اپنے الفاظ میں:’’ وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی،ظاہر کر دی گئی‘‘۔ سلسلۂ فکر و خیال کی ترتیب کے مطابق نظم کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ہم اس کا مطالعہ و تجزیہ کریں گے: ۱۔ تمہید: اظہارِ شکوہ کی توجیہ بند ۱-۲ ۲۔ امت مسلمہ کا کارنامہ بند ۳-۱۳ ۳۔ مسلمانوں کی حالتِ زبوں بند ۱۴-۱۹ ۴۔ حالتِ زبوں کی وجہ کیا ہے؟ بند ۲۰- ۲۳ ۵۔ کیفیتِ یاس و بیم بند ۲۴-۲۶ ۶۔ دعائیہ اختتام بند ۲۷-۳۱