Actions

فلسفۂ جبر و قدر

From IQBAL

موت کے تصو ّر سے اور خاص طورپر اُس وقت ،جب انسان کی کسی عزیز ہستی کو موت اچک کر لے گئی ہو، قلب ِحسّاس پر تقدیر کی برتری اور تقدیر کے مقابلے میں انسان کی بے بسی اور بے چارگی کا نقش ابھرنا ایک قدرتی بات ہے۔ چنانچہ نظم کا آغاز ہی فلسفۂ جبر وقدر سے ہوتا ہے: ذرہ ذرہ دہر کا زندانیِ تقدیر ہے پہلے بند میں بتایا گیاہے کہ سورج اور چاند ستارے، سبزہ و گل اور بلبل غرض دنیا کی ہر شے فطرت کے جابرانہ قوانین میں جکڑی ہوئی ہے اور قدرت کے تکوینی نظام میں ایک معمولی پرزے کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنے پر مجبور ہے۔ پروفیسر اسلوب احمد انصاری کا خیال ہے کہ یہ ’’دل دوز مرثیہ‘‘ علامّہ اقبال نے جبریت یا لزوم(determinism)کی کیفیت میں کہا ہے۔ یہاں اقبال کے لیے پوری کائنات اور اس کے اندر محصور زندگی ’’ زندانی ِ تقدیر‘‘ معلوم ہوتی ہے۔ پہلے بند میں لفظ ’’ مجبور‘‘ یا ’’ مجبوری‘‘ پانچ بار استعمال کیا گیا ہے۔ اپنی ماں کی وفات کے ردّ ِ عمل میں وہ غم و اندوہ کی شدید کیفیت سے دو چار ہوئے اور سمجھنے لگے کہ انسانی کی آزادی اور قو ّت ارادی محض ایک فریب ہے‘‘۔ ( اقبال کی منتخب نظمیں اور غزلیں: ص ۵۴)