Actions

فتنہ قومیت و وطنیت

From IQBAL

علامہ مرحوم ہندوسان میں مسلمانوں کی سیاسی و تمدنی برتری اور ان میں صحیح اسلامی تعلیمات کے پیدا کرنے اور انہیں ان پر عمل پیر اہونے کے داعی تھے۔ جب کبھی اور جہاں کبھ انہیں ایسے اعمال و تحریکات سے سابقہ پڑا تھا جو مسلمانوں کو ان کے مقاصد عالیہ سے منحرف کرنے کے لیے کی جا رہی تھیں علامہ کی نگاہ دوربیں انہیںبھانپ لیتی تھی اور وہ ان کی مخالفت میں آواز بلند کرتے تھے حضرت علامہ نے فتنہ قومیت و وطنیت کو اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا اور وہ مسلمانوں میں اس عصبیت کے پیدا کرنے کے مخالف تھے۔ سیدسلیمان ندوی کو لکھتے ہیں: ’’بزم اغیار کی رونق ضرور تھی۔ اسلام کا ہندوئوں کے ہاتھ پر بک جانا گوارانہیں ہو سکتا۔ افسوس اہل خلافت اپنی اصلی راہ سے بہت دو ر جا پڑے۔ وہ ہم کو ایک ایسی قومیت کی راہ دکھا رہے ہیں جس کو کوئی مخلص مسلمان ایک منٹ کے لیے بھی قبول نہیں کر سکتا‘‘۔ حضرت اکبر کو لکھتے ہیں: ’’اس وقت اسلام کا دشمن سائنس نہیں… اس کا دشمن یورپ کا جغرافیائی جذبہ قومیت ہے جس نے ترکوں کو خلافت کے خلاف اکسایا۔ مصرمیں مصریوں کے لیے کی آواز بلند کی او رہندوستان کو پین انڈین ڈیمو کریسی کا بے معنی خواب دکھایا‘‘۔ آخری ایام میں جو اذیت علامہ مرحوم کو بعض مسلمانوں کے ان اعمال سے ہوئی جن کانتیجہ ملت میں انتشار اور غیر اسلمای اصولوں کو عملاً تسلیم کرنا تھا ناقابل بیان ہے۔ اسی پر انہین مومن پرستد و کافر تراشد کی پھبتی سوجھتی تھیں۔ اور انہیں حالات سے مجبوراً انہوںنے دل چوں کندہ قصاب دارم پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ:

بے نادید نی ہا دیدہ ام من

مرا اے کاش کہ مادر نزادے