Actions

عربی اثرات

From IQBAL

’’ذوق و شوق‘‘ اقبال کے سفر فلسطین کی یادگار ہے، جیسا کہ انھوں نے خود وضاحت کی ہے کہ اس نظم کے بیشتر اشعار فلسطین میں لکھے گئے۔ وہ تقریباً ایک ہفتہ بیت المقدس میں مقیم رہے ‘ عربوں سے ملاقاتیں رہیں اور تبادلۂ خیالات ہوا۔ اس پس منظر میں لکھی جانے والی زیر مطالعہ نظم میں عربی ماحول اور عربی شعر و ادب کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر محمد منور لکھتے ہیں: ’’ کلام اقبال پر عربی اثرات مختلف انداز میں ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ کچھ باتیں صاف اور صریح ہیں‘ کچھ علامت بن گئی ہیں اور کچھ تصاویر خیالی ہیں۔ لطف وہاں آتا ہے جہاں وہ عرب کی ادبی روح کو اپنے شعروں میں سمو دیتے ہیں ۔ جہاں ان کی تشبیہیں ‘ استعارے اور تلمیحیںاور خیالی تصویریں قاری کے ذہن کو عربی ماحول کی طرف منتقل کر دیتی ہیں [ذوق و شوق] کا آغاز اپنی معنوی خوبی کو جبھی واضح کرتا ہے کہ اسے عربی ادب کے آئینے میں دیکھا جائے… کوہِ اِضم اور ریگِ نواحِ کاظمہ کے اندر مدینہ منورہ کی یاد مضمر ہے… وہ عالم خیال میں مدینہ منور ہ کی سیر و زیارت کر رہے تھے…ٹوٹی ہوئی طناب‘ بجھی ہوئی آگ اور گزر جانے والے قافلے عرب شعرا کے محبوب ترین مضمون ہیں… یہ مصرعے دیکھیے: قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں _______ نکلے تری تلاش میں قافلہ ہاے رنگ و بو _______ مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم ، نخیلِ بے رطب ’’نخیلِ بے رطب‘‘ ٹھیٹھ عربی پیرایۂ بیان ہے۔( میزانِ اقبال: ص ۲۶- ۳۲) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے اقبال کو جو عشق تھا‘ اس کا ذکرکرتے ہوئے سر اکبر حیدری کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:’’ میرا ہر بنِ مو آپؐ کی احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آں حضور ؐ کی ذات شاعر اقبال کے لیے سب سے بڑا محرکِ تخلیق یا Source of Inspirationہے… حیات اقبال کی بکثرت روایات شاہد ہیں کہ آپ ؐ کا ذکر آتے ہی اقبال پر ایک عجیب بے خودی و سرشاری کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی، کچھ ایسی کیفیت کہ : جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے