Actions

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

From IQBAL

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہء دل وا کرے کوئی

منصور کو ہوا لب گویا پیام موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعوی کرے کوئی

ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی

میں انتہائے عشق ہوں، تو انتہائے حسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی

عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست
محشر میں عذر تازہ نہ پیدا کرے کوئی

چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں!
پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کر ے کوئی

اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی

نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی

کھل جائیں، کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی