Actions

صہیونی اثرات و عوامل

From IQBAL

صہیونی تحریک اور اس کی سر گرمیوں کو بھی مسلم دنیا ،خصوصاً مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال میں ایک اہم عامل کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہودیوں نے بین الاقوامی سطح پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے The Protocols of the Learned Elders of Zionکی صورت میں ایک بھیانک سازش تیار کی جس کی روشنی میں ۱۸۹۷ء کی بین الاقوامی صہیونی کا نفرنس میں طے پایا کہ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کی جائے۔ فلسطین اس وقت تک سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ ۱۹۰۲ء میں تیوڈورہرتسل Theodor Herzlکی قیادت میں یہودیوں کا ایک وفد سلطان عبدالحمید ثانی سے ملا اور پیش کش کی اگر سلطان یہودیوں کو فلسطین میں آباد کاری کی اجازت دے تو اس کے عوض وہ ترکی کے تمام بیرونی قرضے ادا کر دیں گے۔ اگر چہ بیرونی قرضے سلطان کے لیے ایک بڑا پریشان کن مالی مسئلہ تھا مگر سلطان کے نزدیک مالی مشکلات کے مقابلے میں غیرتِ ملی کا سوال زیادہ اہم تھا۔ اس لیے اس نے یہودیوں کی پیش کش کوحقارت کے ساتھ ٹھکر ادیا، اور جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے، سلطان نے یہودی لیڈر ہرتسل کو ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب تک عثمانیہ سلطنت کا ایک فرد بھی زندہ ہے ، تمھیں فلسطین نہیں مل سکتا۔ اس پر یہودی بہت برافروختہ ہوئے ۔ بلکہ ایک یہودی لیڈر حاخام فرح آفندی تو جاتے جاتے سلطان کو یہ دھمکی بھی دے گیا کہ ہم تم سے نمٹ لیں گے۔ چنانچہ انتقاماً وہ سلطان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگئے۔نوجوان ترکوں کی انجمن اتحاد و ترقی بھی سلطان کو معزول کرنا چاہتی تھی۔ اب انجمن کو بااثر یہودیوں کی تائید و حمایت بھی حاصل ہو گئی۔ کمال اتاترک کا ایک یورپی سوانح نگار لکھتا ہے: ’’ انجمن اتحاد و ترقی نے فری میسن کے طریقِ کار اور ان کے دفاتر کا خوب خوب استعمال کیا‘‘۔ بہرحال سلطنت عثمانیہ اور سلطان کے خلاف یہودیوں کی انتقامی سازشیں جاری رہیں۔ ان کی پہلی کامیابی وہ تھی جب انجمن اتحاد و ترقی کی وزارت کے ذریعے ۱۹۱۴ء میں ایک ایسا قانون پاس کرایا گیا ،جس کے ذریعے انھیں فلسطین میں زمینیں اور جایدادیں خریدنے کی اجازت مل گئی۔ انھوں نے فلسطین کی زرخیز زمینیں خریدنا شروع کر دیں۔ اس کے باوجود وہ سمجھتے تھے کہ بڑی طاقتوں کا سہارا لیے بغیر وہ اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ پہلے تو انھوں نے جرمنی سے معاہدہ کرنے کی کوشش کی ‘پھر انھیں محسوس ہوا کہ برطانیہ اس معاملے میں زیادہ مفید ثابت ہوگا۔ ۱۹۱۶ء میں ’’ عالمی صہیونی تنظیم‘‘ نے ایک میمورنڈم کے ذریعے برطانیہ سے درخواست کی کہ وہ اپنے سیاسی و عسکری مفادات کے پیشِ نظر صہیونیت کی پشت پناہی کرے۔برطانیہ نے اس درخواست کو اعلانِ بالفور( دسمبر ۱۹۱۷ئ) کی شکل میں پذیرائی بخشی۔ جس میں کہا گیا تھا :’’ ہز میجسٹی کی حکومت فلسطین میں یہود کے لیے ان کے قومی وطن کے قیام کے حق میں ہے اور برطانیہ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری پو ری کوشش کر ے گا‘‘۔ اس اعلان کو جنگِ عظیم اول کے تمام اتحادیوں کی توثیق حاصل تھی۔ اعلان بالفور نے ساری دنیا میں منتشر یہودیوں کی مشترک سیاسی تحریک ’’صہیونیت‘‘ کے لیے ایک ایسا سنگِ بنیاد فراہم کر دیا جس کے ذ ریعے وہ فلسطین میں بتدریج قوّت و اقتدار حاصل کرتے چلے گئے۔ اس کے عوض دنیا بھر کے یہودیوں نے برطانیہ کو اپنی پوری تائید خصوصاً مالی اعانت فراہم کری، بلکہ امریکہ کو بھی اتحادیوں کی حمایت میں جنگ میں کھینچ لانے کی خدمت یہودیوں نے انجام دی۔ جنگِ عظیم کے خاتمے پر فلسطین کو برطانیہ نے اپنی نگرانی میں لے لیا تھا، جس مجلس اقوام (League of Nations)کے بارے میں اقبال نے کہا تھا: بہرِ تقسیمِ قبور، انجمنے ساختہ اند اس نے برطانیہ کو ۲۴ جولائی ۱۹۲۳ء کو وہاں حکومت قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ برطانوی اقتداردراصل ایک یہودی حکومت کے مترادف تھا۔ مختلف شعبوں اور کلیدی اسامیوں پر ایسے یہودی انگریز متعیّن کیے گئے جنھوں نے عربوں کو دبایا اور یہودیوں کو ہر شعبۂ زندگی میں آگے لانے کی بھرپورکوشش کی۔ عربی کی جگہ عبرانی سرکاری زبان بنادی گئی۔ ایک جیوش ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ غرض ایسے اقدامات کیے گئے جن سے فلسطین میں یہودی حکومت کے قیام کے لیے فضا اور حالات سازگار ہوتے گئے۔ دوسر ی طرف یہودی اکابر کی کوشش رہی کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بکھرے ہوئے یہودی فلسطین میں آبادکاری کریں جس کے نتیجے میں ۱۹۳۳ء تک وہ ۵۴۵ مربع میل پر قابض ہو چکے تھے حالانکہ ۱۹۱۴ء میں ان کے پاس صرف ۱۷۷ مربع میل رقبہ تھا۔ ۲۸ اپریل ۱۹۴۷ء کو مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں پیش ہوا۔ اقوام متحدہ میں روسی مندوب گرومیکو نے یہودیوں کے حق میں اور عربو ں کے خلاف زبردست تقریر کی۔ سات ماہ کے بحث مباحثے کے بعد فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کر لی گئی۔ اس قرارداد کی روشنی میں یہودیوں کے لیے فلسطین میں اپنی ریاست قائم کرنا آسان ہو گیا۔ چنانچہ ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو انھوں نے ’’ اسرائیل‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا۔ ۳ مارچ ۱۹۴۹ء کو اسے برطانیہ، امریکہ اور روس کی تائید سے اقوام متحدہ کا ممبر بنا لیا گیا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نام نہاد اسرائیل کو سب سے پہلے جس ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا، وہ سوشلسٹ روس تھا جسے فلسطینیوں کا سب سے بڑا حمایتی سمجھا جاتا تھا۔ یہودی مفادات کی حمایت و پیش رفت اور نام نہاد اسرائیل کی ترقی و استحکام میں امریکہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ بلکہ اب تو یہ بات واضح ہو چکی ہے اسرائیل کا وجود امریکی پشت پناہی کا مرہونِ منت ہے ۔ امریکہ ہر سال اسے ایک خطیر امدادی رقم فراہم کرتا ہے۔ نیز وہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ اور عربوں کی مخالفت میں اقوام متحدہ میں بیسیوں بار ویٹو کا ’’ حق‘‘ استعمال کر چکا ہے۔