Actions

شکوہ کا ردّ ِ عمل

From IQBAL

’’شکوہ ‘‘بالکل انوکھی قسم کی نظم تھی، اس لیے ملک کے طول و عرض میں نہایت وسیع پیمانے پر مقبول ہوئی۔ علامّہ اقبال نے ایک موقع پر بتایا کہ کئی ہزار خطوط اس کی تعریف میں آچکے ہیں(روداد ستائیسواں سالانہ جلسہ انجمن، ۱۶ اپریل ۱۹۱۲ء ص:’’ب‘‘ بحوالہ: اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۸۳) عوام و خواص کی توجّہ کا مرکز بنتے ہی بہت جلد اس کا ردّ ِ عمل سامنے آیا: دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے (سب سے اہم ردّ ِ عمل تو خود اقبال کا تھا۔ جوابِ شکوہ کی شکل میں)عوام کا تأثر بالعموم پسندیدگی کا تھا، تاہم بعض حلقوں نے اسے خدا کے حضور گستاخی قرار دیا۔ ردّ ِ عمل کے دونوں پہلوؤں کو مختلف شعرا نے منظوم صورت میں پیش کیا۔ جو نظمیں لکھی گئیں ، ان کی کسی قدر تفصیل ڈاکٹر سید قمقام حسین جعفری کے مضمون ’’ شکوہ اور جوابِ شکوہ‘‘ (ادبی دنیا : اپریل مئی ۱۹۷۱ئ) میں دیکھی جا سکتی ہے۔ تمام جوابی نظموں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ امت ِ مسلمہ مذہب سے رو گردانی کے سبب موجودہ حالتِ زار کو پہنچی ہے۔ اب اصلاحِ احوال کی صورت یہی ہے کہ وہ اپنے اعمال و کردار کو درست کرے۔