Actions

شکوہ

From IQBAL

٭تعارف اور پس منظر

انجمن ِ حمایت ِ اسلام لاہور کے چھبیسویں سالانہ جلسے میں پڑ ھی گئی جو اپریل ۱۹۱۱ء میں ریواز ہوسٹل، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں منعقد ہوا تھا۔اس اجلاس کی صدارت فقیر سیّد افتخار الدین نے کی تھی۔

ایک شاعر کی حیثیت سے علامّہ اقبال کی شہرت و مقبولیت میں انجمن کے جلسوں کو بڑا دخل ہے۔ ان جلسوں میں نظمیں پڑ ھنے کی ابتدا انھوں نے ۱۹۰۰ء میں کی( ’نالۂ یتیم‘)۔ ۱۹۰۱ء میں’یتیم کا خطاب ہلالِ عیدسے‘ ، ۱۹۰۲ء میں ’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب سے‘، ۱۹۰۳ء میں ’ ابر گوہر بار‘( فریادِ امت) اور ۱۹۰۴ء میں ’تصویردرد‘ پڑ ھی گئی۔ ۱۹۰۵ء میں اقبال کوئی نظم نہ پڑ سکے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے۔ ۱۹۰۸ء میں یورپ سے واپسی کے بعد اقبال نے انجمن کے سالانہ جلسے میں ’شکوہ‘ پڑھی۔ اس جلسے میں علامّہ کے والد محترم شیخ نور محمد بھی موجودتھے۔ انجمن کے جلسوں کے لیے اقبال جو نظم لکھتے، بالعموم اسے پہلے سے چھپوالیا جاتا ۔ نظموں کی یہ مطبوعہ کاپیاں جلسوں میں فروخت کی جاتیں اور اس کی آمدنی انجمن کو چندے کے طور پر دے دی جاتی مگر’’شکوہ‘‘ پڑھنے سے پیشتر طبع نہیں کرائی گئی تھی ۔ جلسے میں نظم پڑ ھنے سے پہلے اقبالؒ نے ایک قطعہ سنایا اور اس کے بعد ’ شکوہ‘ خلاف ِمعمول تحت اللفظ پڑ ھنا شروع کی ۔ سامعین نے ترنم سے سنانے پر اصرا ر کیا کیونکہ اس سے پہلے وہ اپنی نظمیں ترنّم ہی سے پڑ ھا کرتے تھے۔ اقبال نے جواب دیا: ’’ یہ اسی طرح سنائی جائے گی کیونکہ میں بہتر جانتا ہوں کہ نظم پڑ ھنے کا کون سا طریقہ موزوں ہے‘‘۔ چنانچہ تحت اللفظ پڑ ھی گئی مگر بقول غلام رسول مہر: انداز اس درجہ دل آویز تھا کہ جن خوش نصیبوں نے سنی ، وہ زندگی کے آخری لمحوں تک اسے نہ بھولیں گے۔ (سرودِرفتہ: ص ۶)اس نظم کی جو کاپی اقبال اپنے قلم سے لکھ کر لائے تھے، اس کے لیے متعدد اصحاب نے مختلف رقوم پیش کیں ۔ نواب ذوالفقار علی خاں نے ایک سو روپے کی پیش کش کی اور رقم ادا کرکے اصل نظم انجمن کو دے دی۔ علامّہ اقبال جب نظم پڑ ھ چکے تو ان کے ایک بڑے مد ّاح اور قدر شناس خواجہ صمد آگے بڑھے اور جوش مسرت میں اپنا قیمتی دوشالا ان کے شانوں پر ڈال دیا۔ اقبال نے یہ دوشالا اسی وقت انجمن کے منتظمین کو دے دیا۔ اس کے بعد یہ یادگار اور متبرک دوشالا اس مجمع ِ عام میں نیلام کیا گیا اور سب سے بڑی بولی ختم ہونے پر جو رقم وصول ہوئی ، وہ انجمن حمایت اسلام کی تحویل میں دے دی گئی۔ ( روزگار فقیر اول : ص ۱۲۳) اقبال نے انجمن کے جلسے میں شکوہ جس شکل میں پڑ ھی تھی، بانگِ درا میں شامل کرتے وقت اس میں کئی مقامات پر تبدیلی کی گئی۔ مثلاً: تیرھویں بند کے چوتھے مصرعے کی ابتدائی صورت یہ تھی:

         تیرے قرآن کو سینے سے لگایا ہم نے

سترھویں بند کا پانچواں مصرع ابتدائی شکل میں اس طر ح تھا: طعنِ اغیار ہے ، رسوائی و ناداری ہے پچیسویں بند کا پانچواں مصرع ابتدائی شکل میں اس طرح تھا: پھر پتنگوں کو مذاقِ تپش اندوزی دے بانگِ دراکی اشاعت سے پہلے، یہ نظم مختلف رسالوں، مثلاً:پنجاب ریویو، مخزن، تمدن اورادیبمیں شائع ہوئی تھی۔ متعدد زبانوں ( انگریزی، عربی ، بنگالی، پنجابی) میں اس کے بہت سے تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں ۔ ایک آرٹسٹ ضرار احمد کاظمی نے نظم کو مصور کرکے علامّہ کی خدمت میں پیش کیا جسے انھوں نے بہت پسندکیا اور مصور کے نام ایک مکتوب میں اس کی تعریف کی۔ ’’ شکوہ‘‘ کی تالیف ( اوائل ۱۹۱۱ئ) کے زمانے میں سلطنت عثمانیہ کے بہت سے علاقے براہِ راست برطانوی تسلط میں تھے۔ ایران پر عملاً روسی ، برطانوی اور کسی حد تک جرمن اثرات کی حکمرانی تھی۔ ادھر عرب نیشنلزم کے اثرات تیزی سے پھیل رہے تھے۔ لارنس آف عریبیا جیسے لوگ بڑی سرگرمی سے اس کے لیے کام کر رہے تھے اور عرب ، ترکوں کے خلاف آمادۂ بغاوت تھے۔ نوجوان ترکوں کی تحریک کے زیر اثرترکی میں لادینیت اور تورانی قوم پرستی فروغ پار ہی تھی ۔ اندرونی خلفشار کے علاوہ بیرونی طاقتیں عثمانی سلطنت کے لیے نت نئے مسائل کھڑ ے کر رہی تھیں۔ صہیونی ‘ سلطنتِ عثمانیہ کی بر بادی اور خاتمے کے لیے سازشوں میں مصروف تھے۔ ہندی مسلمان یا تو کانگریس کے حاشیہ بردار تھے یا ان میں ( الا ماشاء اللہ)Yours most obedient servantقسم کے رہنما پائے جاتے تھے جو مغرب سے بے حد مرعوب تھے اور سر سیّد تحریک کے زیر اثر وہ اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ اندازِ فکر رکھتے تھے۔ملک پر انگریزوں کی سیاسی گرفت خاصی مضبوط تھی۔ ہندو ؤں کے دباؤ کی وجہ سے ۱۹۱۱ء میں تقسیم بنگال کی تنسیخ سے مسلمانوں کو بے حد صدمہ ہوا اور ان کے اندر مایوسی کچھ اور بڑ ھ گئی۔