Actions

شمع اور شاعر"

From IQBAL

تعارف اور پس منظر

’ شمع اور شاعر ‘فروری ۱۹۱۲ء میں لکھی گئی اور دو ماہ بعد انجمن حمایت اسلام کے ۲۷ ویں سالانہ اجلاس منعقدہ ۱۶ اپریل ۱۹۱۲ء میں پڑ ھی گئی۔ یہ اجلاس اسلامیہ کالج لاہور کے ریواز ہوسٹل کے صحن میں منعقد ہوا تھا۔ اول تو نظم خاصی طویل تھی، دوسرے انجمن کے دو بڑے سرپرستوں مرزاسلطان احمد اور فقیر سید افتخار الدین میں سے ہر ایک نے اصرار کیا کہ نظم اس کی صدارت میں پڑ ھی جائے۔ مجبوراً یہ فیصلہ ہوا کہ اقبالؔ اسے دو نشستوں میں پڑ ھ کر سنائیں گے۔ گذشتہ سال انجمن کے جلسے میں اقبال نے ’’شکوہ ‘‘سنائی تھی اور وہ بہت مقبول ہوئی تھی۔ شاید اسی لیے اس بار ان کی نظم سننے کے لیے تقریباً دس ہزار سامعین جمع ہو گئے تھے۔ شیخ عبدالشکور کا بیان ہے کہ یہ ’’ علامّہ کی بھرپور جوانی کا زمانہ تھا۔ سرخ و سفید رنگ، شان دار مونچھیں ، بڑے وجیہ اور جامہ زیب انسان تھے۔ سرخ ترک ٹوپی ان کے سر پر عجب بہار دکھاتی تھی‘‘۔ (بحوالہ: اقبال کے ہم نشین، مرتبہ:صابر کلوروی، ص: ۲۳۵) …پہلی نشست کی صدارت مرزا سلطان احمد نے کی ۔ اقبال نے نظم کا آغاز کرنے سے پہلے ایک مختصر تقریر کی۔ فرمایا: ’’ جو نظم پچھلے سال لکھی تھی، وہ شکوہ تھا اور اس میں خدا سے شکایت تھی اور بعض لوگوں نے اسے براخیال کیا اور یہ سمجھا کہ یہ بہت بڑی جسارت ہے… وہ اس قدر مقبول ہوئی کہ آج تک کئی ہزار خطوط اس کی تعریف میں میرے پاس آچکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی، وہ ظاہر کر دی گئی… میری آج کی نظم ایسی جامع ہے، جس میں مشکلات کی تصویر اور اس کے حل کرنے کا نسخہ درج ہوگا۔ اس کے لیے آپ اس کو دونوں حیثیتوں سے دیکھیں۔ ایک شاعرانہ پہلوسے ، دوسرے تجاویز نسخہ کے لحاظ سے اور اسی لیے عرض ہے کہ خدا کے واسطے تم توجّہ کرو اور اسلام کی عزت بڑ ھانے کے لیے پوری سرگرمی سے کام لو‘‘۔ ( روداد ستائیسواں سالانہ جلسہ انجمن حمایت اسلام: ص ۸۳۔۸۴ بحوالہ: اقبال اور انجمن حمایت اسلام ص) اس کے بعد انھوں نے نظم کے ابتدائی چھے بند سنائے۔ پہلی صدارت ختم ہوئی۔ دوسرے صدر کے کرسی نشین ہونے اور رسمی تقریرکرنے تک اقبالؔ کو آرام لینے کا موقع مل گیا۔ آخری چھے بند فقیر سید افتخارالدین کی صدارت میں سنائے۔ نظم سنانے سے پیشتر انھوں نے ایک قطعہ بھی سنایا جس میں جلسے کے دونوں صدور کا ذکر تھا۔ قطعہ یہ تھا: ہم نشینِ بے ریایم از رہِ اخلاص گفت

اے کلامِ تو فروغِ دیدۂ برنا و پیر درمیانِ انجمن معشوقِ ہرجائی مباش

گاہ با سلطان باشی، گاہ باشی با فقیر گفتمش اے ہم نشیں! معذور می دارم ترا

در طلسمِ امتیازِ ظاہری ہستی اسیر من کہ شمع عشق را در بزمِ دل افروختم

سوختم خود را و سامان دوئی ہم سوختم (مطالب بانگِ درا: ص ۲۳۴) اقبال یہ نظم ترنم سے سنا رہے تھے، جب وہ اس شعر پر پہنچے: در غمِ دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز گفتمت روشن حدیثے گر تودانی دار گوش تو ان کے ایک مداح خواجہ عبدالصمد ککڑو نے بے اختیار ہو کر کہا: اقبال بارِد گر بخواں۔ اس پر اقبال نے بے ساختہ کہا: تاب ِ دگر بار سوختن ندارد۔ اقبال کے برجستہ جواب پر سامعین نے دل کھو ل کر داد دی اور خواجہ عبدالصمد ککڑو نے بے تاب ہو کر ، اقبال کا ہاتھ چوم لیا اور اس کے ساتھ ہی انجمن کو ایک ہزار روپے چندہ عطا کیا۔ (مطالب بانگِ درا: ص ۲۳۶) یہ نظم مولانا ظفر علی خاں نے اپنے پریس میں خاص اہتمام سے دس ہزار کی تعداد میں چھپوائی تھی اور آٹھ آنے فی کاپی قیمت رکھی گئی تھی۔ انھوں نے اعلان کیا تھا کہ اس کی فروخت سے جو پانچ ہزار روپیہ وصول ہوگا ،وہ ڈاکٹر اقبالؔ کو دے کر تبلیغ اسلام کے لیے جاپان بھیجا جائے گا۔ (سرودِ رفتہ: ص ۲۰۲)ا یک روایت یہ ہے کہ نظم کی ایک ایک کاپی پانچ پانچ روپے میں فروخت ہوئی۔ نظم کی ابتدائی شکل میں ساتویں بند کا پہلا شعر تھا: ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں سرمہ چشم دشت میں گردِ رمِ آہو ہوا بعد میں بانگِ درا کی ترتیب کے موقع پر اس شعر کو حذف کر دیا گیا۔

۱۹۱۱ء کے خاتمے پر اور ۱۹۱۲ ء کے آغاز میں دنیاے اسلام کی دردناک صور ت حا ل ہر دردمند مسلمان کے دل کو رونا رلا رہی تھی۔ شکوہ (اوائل۱۹۱۱ئ) کے زمانے میں عالم اسلام جس افسوس ناک حالت سے دو چار تھا ’شمع اور شاعر‘ ( ۱۹۱۲ئ) تک پہنچتے پہنچتے ، اس میں اتنا اضافہ ہوا کہ ستمبر ۱۹۱۱ء میں اٹلی نے طرابلس پر حملہ کردیا۔ سلطنت عثمانیہ کے بہت سے علاقوں ( مصر، مالٹا، سوڈان، قبرص، الجزائر ، تیونس اور مراکش وغیرہ) پر تو برطانیہ اور فرانس نے پہلے ہی قبضہ کر لیا تھا، صرف طرابلس استعماری طاقتوں کے تسلط سے بچا ہوا تھا۔ اٹلی نے اپنے سابقہ اعلانات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے، ۲۹ ستمبر ۱۹۱۱ء کو طرابلس پر ایک بھر پور حملہ کردیا۔ وہاں ترکوں کی بہت تھوڑی سی فوج مقیم تھی۔ ترکی سے مدد پہنچنا مشکل تھا کیونکہ مصر پر انگریزوں کا قبضہ تھا۔ سلطنت عثمانیہ کی بحریہ بھی کمزور تھی اس لیے سمندر کے راستے کمک پہنچانا بھی ممکن نہ تھا، تاہم غازی انور پاشا کسی نہ کسی طرح طرابلس پہنچ گئے۔ انور پاشا غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کی دعوتِ جہاد کا طریق ایسا دل نشین تھا کہ قبائلیوں کی صدیوں پرانی عداوت، اخو ّت و مؤدّت سے بدل گئی۔ مزید برآں انور پاشا نے انھیں ایسی عمدہ فوجی تربیت دی کہ عربوں نے اطالویوں سے بہت سا اسلحہ چھین لیا۔ 

جنگِ طرابلس کے واقعات اس دور کے اخبارات خصوصاً الہلال اور زمیندار میں شائع ہوتے رہتے تھے جس کے سبب ہندستانی مسلمانوں میں کافی جوش و خروش پیدا ہو گیا تھا۔ قبیلہ البراعصہ کے سردار شیخ عبداللہ کی گیارہ سالہ بیٹی ایک محاذ پر مجاہدین کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوگئی۔ اقبال کی نظم’’ فاطمہ بنت عبداللہ‘‘ اس ایمان افروز واقعے کی یادگار ہے۔ ’شمع اور شاعر ‘فروری ۱۹۱۲ء میں لکھی گئی۔ ان دنوں جنگِ طرابلس جاری تھی۔ اس جنگ کے حوالے سے اقبال نے انھی دنوں ایک اور نظم’’ حضور رسالت مآب ؐ میں ‘‘لکھی۔طرابلس کے واقعات کو سن سن کر مسلمانوں کے دلوں میں جو فکر و اضطراب پیدا ہو رہا تھا، ان دونوں نظموں میں اس کی واضح جھلک موجود ہے۔