Actions

زندگی کی حقیقت

From IQBAL

شاعر کا دوسرا سوال انسانی زندگی کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں ہے۔ انسانی زندگی کی حقیقت اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتی جب تک اس کائنا ت اور دنیاکی تخلیق کی اصل غرض و غایت کا پتا نہ چلے۔ کائنات اور انسان کے بارے میں دو نظریے اہم اور قابلِ لحاظ ہیں: ایک نظریے کے مطابق کائنا ت کی تخلیق محض اتفاقی ہے۔ کائنات کی تمام چیزیں جن میں ہماری دنیا اور اس کے باسی بھی شامل ہیں خود بخود وجود میں آگئی ہیں۔ اور ان کی خلقت کا سبب مادّے کے سوا کوئی اور شے نہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے اسے حیات و کائنات کی ’’ فطری توجیہ‘‘ کا نا م دیا ہے۔ قدیم ملوکیت اور شاہی نظام، تہذیب ِ مغرب اور سرمایہ داری ، مارکسی فکر اور کمیونزم … سب اسی نظریے کی پیداو ار ہیں۔ اقبال کے خیال میں ان سب نظاموں نے انسانیت کو دہکتے ہوئے جہنم کے کنار ے پہنچا دیا ( علامّہ اقبال کا یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا نشری پیغام: حرفِ اقبال، ص ۲۲۴- ۲۲۵) دوسرے گروہ نے انسان کو لاچار و بے بس ، مجبور ، عاجز اور مسکین قرار دیا۔ زندگی ایک وبال ٹھہری۔ ارسطو کا قول ہے: ’’پیدا نہ ہونا سب سے اچھا ہے اور موت زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ رواقیت (Stoicism) کے نظریات پیدا ہوئے ۔حکما و رواقیّین کے نزدیک انسان کا خود اپنے آپ کو قتل کرنا کوئی برا کام نہیں تھابلکہ ایک ایسا باعزت فعل تھا کہ لوگ جلسے کرکے ان میں خودکشیاں کیا کرتے تھے۔ حد یہ ہے کہ افلاطون جیسا حکیم بھی اسے کوئی معصیت نہیں سمجھتا تھا۔ ( سید ابوالاعلیٰ مودودی: الجہادفی الاسلام: ص ۱۹) شوپن ہار کے فلسفے کاخلاصہ یہ ہے کہ دنیا ایک خراب آباد یا زندوں کی دوزخ ہے۔ تیاگ، رہبانیت، ترکِ دنیا اور عجمی تصو ّف کو انھی بنیادوں پر فروغ ہوا۔ یہ نظریہ دنیا میں امن و سلامتی اور خوش حالی کا موجب نہیں ہو سکتا۔ حیات و کائنات کے بارے میں دوسرا نظریہ اسلام کا ہے ۔ جس کے مطابق اس کائنات کو ایک بلند و برتر ہستی نے ،جور ب العالمین ہے،تفریح طبع کی خاطر نہیں بلکہ ایک خاص مقصد کے پیش ِ نظر تخلیق فرمایا ہے۔ کائنات کا نظام اس کے مقررہ اصولوں کے مطابق چل رہا ہے۔ کائنات کی کوئی شے رب العالمین کے حکم سے سر مو انحراف نہیں کر سکتی۔ اس نظام میں انسان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دیگر مخلوقات کو اس کی خدمت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ انسان قدرت کے مخفی خزانو ںکو اپنے کام میں لاتے ہوئے زندگی کونہ صرف بہتر اور خوش حال بناسکتا ہے بلکہ اسے ایسا کرنے کی تاکیدکی گئی ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ وہ چند اصولوں اور قوانین کی پابندی کرے ۔ احکام و فرائض کا خیال رکھے اور اوامر و نواہی کو بجالائے۔ ان کے بارے میں وہ جوا ب دہ ہے ۔ یہی تصو ّرآخرت ہے۔ جواب دہی کی پابندی انسان پر اس لیے عائد کی گئی کہ اس کی سر گرمیوں میں تواز ن قائم رہے۔ اسی کو ’’ فلاح و کامرانی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ مختصر اً، اس قرآنی فکر کو ہم تین پہلوؤں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ۱۔ انسانی شرف و فضیلت اور عظمت آدم ۲۔ انسانی زندگی میں عمل و حرکت کی اہمیت اور اس کی قو ّت تعمیر و تسخیر( خودی) ۳۔ زندگی کی ناپایداری اور امتحان گاہ( تصو ّرِآخرت) جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے اقبال کے نزدیک انسانی زندگی ا ور اس کے شرف کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے اندر جرأت و بے باکی ، وسیع النظری، بلندہمتی، استقلال اور ’’گرم دم جستجو‘‘ ’’ نرم دم گفتگو‘‘ جیسی خصوصیات و کیفیات پیدا ہوں ۔ وہ امروز و فردا کے چکر میں الجھے نہ سود و زیاں کے اندیشے میں مبتلا ہو۔ یہ سب باتیں اس لیے ضروری ہیں کہ انسان کے لیے کارِجہاں بہت دراز ہے۔ اس مصرعے: ’’جاوداں، پیہم دواں، ہردم جواں ہے زندگی‘‘ کی تشریح اقبال کے ہاں جابجا ملتی ہے:

ستار وں  سے  آگے   جہاں   او ر  بھی  ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ہر لحظہ نیا طور ، نئی برق تجلی

اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا

حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں زندگی کے اسی تحرک میں سرِّآدم مضمر ہے۔ یہ سر آدم کیا ہے؟ تسخیر و تعمیرکائنات کی وہ قوّت جو انسانی زندگی میں پنہاں ہے ۔یہ قو ّت اسی صورت پیدا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنے اندر خدا کی ودیعت کر دہ خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرے۔ یہ دوسری چیز ہے جس پر نظم کے اس حصے میں اقبال نے زور دیا ہے۔ ۲۔ تسخیر و تعمیر کائنات، فکر اقبال کا ایک اہم پہلو ہے جو براہِ راست قرآ ن پاک سے ماخوذ ہے۔ دراصل انسان کو کائنات کی مخلوقات پر جو فضیلت عطاکی گئی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی پوری صلاحیت اور استعداد کو بروے کار لاکر زندگی کو اسلامی معیاروں کے مطابق بہتر اور حسین بنانے کے لیے پیہم جدوجہد کرے اور اسی کا نام جہاد ہے ۔ اسلام میں جہاد پر جس قدر زور دیا گیا ہے، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ زیر مطالعہ نظم میں اقبال نے انسان کی قو ّتِ تعمیر و تسخیر کے ذکر کو انتہائی مربوط شکل میں پیش کیا ہے۔ ۳۔حیات و کائنات کا تیسراپہلو یہ ہے کہ دنیا ایک ناپایدار چیز ہے اور یہ انسان کے لیے دارالامتحان ہے۔ اس سلسلے میں قرآنی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس کے اعمال کاحسا ب لیا جائے گا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ ملے گا۔ زندگی کے اس تیسرے پہلو کو اقبال نے صرف ایک شعر میں بیان کر دیا ہے: قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانندِ حباب اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی اقبال چاہتے ہیں کہ انسان دنیا کی اس آزمایش گاہ سے، جو اس کے لیے دارالامتحان ہے ، کندن بن کر نکلے۔ امتحان کی اس تیاری کے لیے وہ انسان کو باربار اس کے امتیازوشرف کا احساس دلاتے، اس کے ذوقِ عمل و جدوجہد کو ابھارتے اور خاتمے پر ایک بار پھر اسے آزمایش کے لیے تیار ہونے کی ہدایت کرتے ہیں: یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے اس شعر کی تنبیہ نما نصیحت کا مخاطب بحیثیت مجموعی بنی نوع انسان اور ضمناً ہندی مسلمان ہے۔ ۲۲- ۱۹۲۱ء میں عالم اسلام کے سیاسی و تہذیبی حالات کا مطالعہ کیاجائے تو ’’ یہ گھڑی محشر کی ہے‘‘ کی صداقت سمجھ میں آتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ابھی تک غفلت کی نیند سور ہا ہے۔