Actions

دیگر فنی محاسن

From IQBAL

اندازِ بیان ، لہجے اور ڈرامائی کیفیت کی خوبیوں کے علاوہ ’’ جوابِ شکوہ‘‘ بعض ایسے فنی محاسن سے مزین ہے جو اسے حسن ِ بیان کا شاہ کار بناتی ہے۔ چند پہلوملاحظہ ہوں: الف: حسن بیان : جس سے ’’ شکوہ‘‘ کیا جائے، جواب میں اس کی طرف سے بالعموم عذر و معذرت پیش کی جاتی ہے مگر ’’ جوابِ شکوہ‘‘ کاحسن بیان ملاحظہ ہو کہ اس میں ’’ شکوہ‘‘ کرنے والے پر اس کا شکوہ لوٹا دیا گیا ہے۔ گویا شکوہ کرنے والے کا منہ بند کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں خصوصاً مندرجہ ذیل اشعار اور مصرعے قابلِ ملاحظہ ہیں۔ ان میں پوشیدہ طنز کی کاٹ اور اثر انگیزی کا جواب نہیں : شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟

وضع میں تم ہو نصارا تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟ ایک جگہ موجود ہ مسلمانوں کا موازنہ ان کے اسلاف سے کیا ہے۔ یہ شعر ایجازو جامعیّت کا ایک خوبصورت نمونہ ہے:

وہ  زمانے   میں   معزز  تھے  مسلماں  ہو  کر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر مسلمانوں کے شکوے کے جواب میں یہ ایک شعر ہی کافی ہوتا کیونکہ استدلال لاجواب ہے: باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیوں کر ہو ب: تصویر کاری اور تشبیہ کی مثالیں ’’ جواب ِشکوہ ‘‘ میں بہت منفرد ہیں: کشتی ِ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے عصرنو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا

پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا 

ج: چند نئی تراکیب جو ’’ جوابِ شکوہ‘‘ میں ملتی ہیں : صہیلِ فرسِ اعدا، مردمِ چشمِ زمیں، غیریک بانگِ درا، برق طبعی، شعلہ مقالی، قدسی الاصل، داناے رموزِ کم وغیرہ۔ د:صنعت گری کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں: ۱ ۔ صنعت تلمیح: تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا ______ رفعت ِ شانِ رفعنا لک ذکرک دیکھے ______ ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ۲۔ صنعت طباق:(دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضدہوں): منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبیؐ ، دین بھی ایمان بھی ایک ۳۔ صنعت مراعاۃ النظیر: حرم پاک بھی ،اللہ بھی،قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک ۴۔ صنعت ترافق: ( جس مصرع کو چاہیں ، پہلے پڑ ھیں معنی میں کوئی فرق نہیں آتا): غافل آداب سے، سُکّانِ زمیں کیسے ہیں؟ شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں؟ ۵۔ صنعت ترصیع: (دو مصرعوں کے زیادہ یا تمام الفاظ کا ہم قافیہ ہونا): سیکڑوںنخل ہیں ، کاہیدہ بھی بالیدہ بھی ہیں سیکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں ۶۔ صنعت تاکید الذم بما یشبہ المدح : (ہجو یا مذمت کی تاکید ایسے لفظوں سے جو مدح سے مشابہت رکھتے ہوں): ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا لاکے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا ۷۔ صنعت اطراد:(جس کی مدح یا مذمت کی جائے ،اس کے نام کے ساتھ اس کے باپ کا نام بھی مذکور ہو) : بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں _______ ’’جوابِ شکوہ‘‘ فکرو خیال کی جدت کے ساتھ فنی اعتبار سے بھی اقبالؔ کا حسین و جمیل تخلیقی پیکر ہے۔ تاثرکی شدت اور گہرائی نظم کے ہر حصے میں موجود ہے ۔ اختتام خصوصاً بہت بامعنی ، بلیغ اور بے نظیر ہے۔ آخری شعر : کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں پوری نظم کا حاصل ہے۔ امت ِ مسلمہ کے شکوے کے جواب میں صرف یہی شعر ہی کافی ہو سکتا تھا۔