Actions

دعوتِ عمل

From IQBAL

درخشاں مستقبل سامنے ہے اور مقصد زندگی( نورِ توحید کا اتمام) بھی واضح، چنانچہ اب اقبال مسلمان کو دعوت عمل دیتے ہیں۔ ( بند ۳۲- ۳۶) اقبال کی پکار یہ ہے کہ اے مسلمانو! ہماری قو ّت کا راز جذبۂ عشق میں پوشیدہ ہے ، جس کا سرچشمہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ بند ۳۳- ۳۴ میں اقبال نے اس حقیقت پر زور دیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ہی باعث ِ کون و مکاں ہے ۔ اشارہ ہے اس قول کی طرف جو حدیث ِ قدسی کے طور پر معروف ہے: لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ… اگر آپؐ نہ ہوتے تو میں افلاک کو تخلیق نہ کرتا۔ اس لیے اے مسلمانو! تم بھی رسول خداؐ کا پیغام اطراف عالم میں پھیلانے کی بھرپورکوشش کرو۔ ۳۴ ویں بند کے آخری شعر کی تلمیح قرآن پاک کی سورۃ اَلَمْ نَشْرَحْ سے لی گئی ہے ۔معنی ہے :’’اے نبیؐ، ہم نے تیرے ذکر کو رفعت و بلندی بخشی…‘‘۔ اقبال کی اس دعوتِ عمل کا مرکزی نکتہ چونکہ عشق رسولؐ ہے ، اس لیے نظم کے آخری حصے میں جذبۂ عشق سے سرشار وہی والہانہ کیفیت موجود ہے جو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرکرتے ہوئے اقبال پر عموماً طاری ہوتی تھی۔ مؤذّنِ رسول حضرت بلالؓ ،عشق رسولؐ کا ایک مثالی پیکر تھے اور ان کا تعلق افریقہ کی سرزمینِ حبش سے تھا۔ اس لیے تذکرۂ حبّ ِ رسولؐ کے ضمن میں بلالی دنیا( حبش) کا ذکر بھی آیا ہے۔ ’’کالی دنیا‘‘ کاکنایہ حبش (Ethopia) کے لیے ہے ۔ اس بند ( ۳۵) میں یہ اشارہ بھی ہے کہ سر زمین افریقہ میں لوگ جوق در جوق حلقہ بگوشِ اسلام ہورہے ہیں۔ آخری بند میں حق کے لیے جد وجہدوعمل پر زور دیتے ہوئے لڑائی کے ہتھیاروں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ اقبال کے نزدیک راہِ حق کے مجاہدوں کو عقل و عشق کے اسلحے سے لیس ہونا چاہیے۔ ان کا مقصود خلافت ِ الہٰی ہے ۔ ان کا سب سے بڑا ہتھیار ’’حبّ ِ رسولؐ ‘‘ہے:’’کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں‘‘کا مفہوم ہے کہ اگر مسلمان آپؐ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرکے صحیح معنوں میں مسلمان بن جائے تو پھر تقدیر بھی اس کے سامنے سر نگوں ہو جائے گی۔ یہ دنیا ہی نہیں، پوری کائنات اس کے تصرف میں ہوگی۔ یعنی: ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کارآفریں ، کارکشا ، کارساز