Actions

حاشیہ

From IQBAL

۱۔ یہ اقدامات چونکہ آمریت کے سائے میں جابرانہ طریقے سے کیے گئے اور اس انتہا پسندی میں عوام کی مرضی کو دخل نہ تھا‘ اس لیے کمالی دورکے خاتمے پر اس کا ردّ ِ عمل سامنے آیا۔ ۱۹۵۰ء کے بعد سے ترکی میں اسلامی و دینی رجحانات بڑی شدت سے زور پکڑتے گئے۔ ایک امریکی کے بقول:’’ اسلام کے اثرات کا یہ عالم ہے کہ لادین ترکی میں ہر سطح کے سیاسی راہ نما دیہاتی ووٹ حاصل کرنے کے لیے مجبور ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو اسلام سے ہم آہنگ اور اس کا وفادار ثابت کر دکھائیں‘‘۔ عدنان میندریس کے دور میں عربی میں اذان دینے کی اجازت مل گئی ۔ نئی مساجد کی تعمیر شروع ہوئی۔ حج بیت اللہ کے لیے زیادہ سہولتیں دی جانے لگیں۔ استامبول یونی ورسٹی میں شعبۂ اسلامیات قائم ہوا۔ پرائمری سکولوں میں اسلامی تعلیم لازم قرار پائی اور یوں پچاس کے عشرے میں مذہب ایک قو ّت بن کر ابھرنے لگا۔ اس پر سیکولر حلقوں خصوصاً فوج کی تشویش بڑ ھنے لگی۔ بدقسمتی سے عدنان میندریس کی آمرانہ پالیسیوں کی وجہ سے بعض طبقے ان کی حکومت کے خلاف ہوگئے۔ چنانچہ ۱۹۶۰ء میں جنرل جمال گرسل نے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی اور میندریس اور اس کے دو وزیروں کو پھانسی دے دی گئی۔ ۱۹۶۱ء میں مذہبی رجحانات کی حامل جسٹس پارٹی قائم ہوئی۔ اس پر پابندی لگی توکچھ عرصے بعد ملی سلامت پارٹی وجود میں آئی۔ پھر رفاہ پارٹی، اور اس کے بعد سعادت پارٹی… یہ سب اسلامیت کی علمبردار جماعتیں تھیں‘ اس لیے یکے بعد دیگرے فوج کے عتاب کا نشانہ بنتی اورپابندیوں کا شکار ہوتی رہیں۔ نجم الدین اربکان کو وزیراعظم کے طور پرایک سال بھی کام کرنے نہیں دیا گیا۔ سیکولر عناصر کی انتہا پسندی اس درجے کو پہنچ گئی کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں یونی ورسٹی طالبات کے لیے سکارف ( حجاب) اوڑھنا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ ایک خاتون رکن اسمبلی کو سکارف اوڑھنے پر اصرار کی پاداش میں نہ صرف اسمبلی کی رکنیت سے محرو م کر دیا گیا بلکہ اس کی شہریت بھی ختم کردی گئی۔ ملک میں ایسی نامعقول پابندیوں کا ردّعمل اتنا شدید ہوا کہ ۲۰۰۳ء کے انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو( جو سعادت پارٹی ہی کا ایک حصہ یا اس کا ایک فارورڈ بلاک تھا ) زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور اب وہی برسرِ اقتدار ہے۔