Actions

جوابِ شکوہ

From IQBAL

٭تعارف اور پس منظر انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسے میں ’’ شکوہ‘‘ پڑ ھی گئی تو وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ’’شکوہ‘‘ کا انداز اور لہجہ قدرے گستاخانہ ہے۔چنانچہ اس کی تلافی کے لیے، اور یوں بھی شکوہ ایک طرح کا سوال تھا جس کا جواب اقبالؔ ہی کے ذمے تھا، ڈیڑھ سال بعد انھوں نے ’’جوابِ شکوہ ‘‘لکھی۔ یہ ۳۰ نومبر ۱۹۱۲ء کو ایک جلسۂ عام ( بہ سلسلہ امدادِ مجروحینِ بلقان) میں پڑ ھی گئی جو نمازِ مغرب کے بعد باغ بیرون موچی دروازہ منعقد ہوا تھا۔ میاں عطاء الرحمن کی روایت ہے کہ جب اقبال کے مد ّاحوں کوخبر ملی کہ انھوں نے ’’شکوہ‘‘ کا جواب لکھا ہے تو اس خبر سے ہر طرف جوش امید پھیل گیا اور شاید اسی سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے مولانا ظفر علی خاں زمیندار والوں نے موچی دروازے کے باہر باغ میں ایک عظیم الشان جلسے کا اہتمام کیا اور اعلان ہوا کہ اس میں اقبال کی نظم ہوگی ۔ شایقین کا ایک جمّ غفیر باغ کے پنڈال میں جمع ہوا ۔ میں خود اس جلسے میں موجود تھا۔ اقبال نے نظم پڑھی۔ہر طرف سے بے پناہ داد ملی۔ ایک ایک شعر نیلام کیا گیا اور ایک گراں قدر رقم بلقان فنڈ کے لیے جمع ہو گئی۔ ( سیارہ ،اقبال نمبر :۱۹۷۷ئ،ص ۱۰۹) ’’شکوہ‘‘ کی طرح زیر مطالعہ نظم کے ترجمے بھی کئی زبانوں میں ملتے ہیں۔ ضرار احمد کاظمی آرٹسٹ نے اس نظم کو بھی مصور کیاتھا۔ نظرثانی میں اس کے بعض اشعار میں ترمیم کی گئی اور کئی بند نظم سے خارج کر دیے گئے۔ بعض بندوں کی ترتیب بھی بدل دی۔ سرود رفتہ میں چارخارج شدہ بند ملتے ہیں۔ ’’ جوابِ شکوہ‘‘ اور ’’ شکوہ‘‘ کے درمیان ڈیڑ ھ سال کا وقفہ ہے۔ یہ عرصہ دنیا کے مسلمانوں کے لیے نئے مصائب اور نئی پریشانیاں ساتھ لایاتھا۔ جنگ ہاے بلقان (۱۳- ۱۹۱۲ئ) اور کان پور میں شہادتِ مسجد کے دردناک واقعات نے ہندی مسلمانوں کو افسردہ اور دل گرفتہ کر دیا تھا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے : یورپ کی مسیحی طاقتیں ترکی کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا زیادہ سے زیادہ حصہ خصوصاً ترکی کا یورپی علاقہ جو صدیوں سے عثمانیوں کی مسلم سلطنت کا حصہ تھا ،اس سے چھین لینا چاہتی تھیں۔ اکتوبر ۱۹۱۲ء میں بلقانی ریاستوں ( بلغاریہ، یونان، سرویااور مونٹی نگرو) نے ترکی پر حملہ کر دیا۔در پردہ برطانیہ ان کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ بلقانی ریاستوں کی تقریباً تین لاکھ متحدہ فوج کے مقابلے میں ترکی سپاہیوں کی تعداد ایک لاکھ تھی۔ مزید برآں بلقانی فوجیں تربیت و تنظیم کے اعتبار سے بھی ترکوں پر فائق تھیں۔ اس نازک موقع پر ترکی فوج کے یہودی اور عیسائی سپاہیوں نے میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کی۔ان کی غداری سے ترکوں کی پوزیشن اور بھی کمزور ہو گئی۔ بلقانی فوجیں ترکوں کو پے در پے شکست دیتی ہوئی ۸ نومبر کو سالونیکا پر قابض ہو گئیں۔ جلد ہی انھوں نے بحیرہ ایجین کے تمام عثمانی جزیروں پربھی قبضہ کر لیا۔ ۳۰ مئی کو صلح نامۂ لندن پر دستخط ہوئے جس کی رو سے ترکی کو اینوس اور میڈیا کے درمیانی خطے کے مغربی جانب سب علاقے چھوڑنے پڑے۔ بحیرۂ ایجین کے جزائر سے بھی دستبردار ہونا پڑا۔ اسی اثنا میں مال غنیمت کی تقسیم پر بلقانی اتحادیوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ ترکی نے موقع غنیمت جان کر ادرنہ، ڈیموٹیکا اور قرق کلیسا واپس لے لیے۔ تاہم اس جنگ میں سلطنت عثمانیہ کا کم و بیش ساڑھے پانچ لاکھ مربع میل رقبہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس سارے عرصے میں جنگِ بلقان کی مختلف لڑائیوں اور معرکوں کی تفصیل ہندستانی اخبارات میں شائع ہوتی رہیں ۔ ہندی مسلمان اپنے ترک بھائیوں کی شکست پر بہت مضطرب ہوئے۔ ترکوں کی مدد کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہمیں چلائی گئیں۔ ( جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے موقع پر انجمن حمایتِ اسلام کے جلسے میں جو رقم جمع ہوئی، وہ بھی بلقان فنڈ میں دے دی گئی۔) شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے ڈیڑھ لاکھ کی خطیر رقم جمع کرکے بھیجی ۔ مدد حاصل کرنے کے لیے ترکی سے ہلال احمر کا ایک وفد یہاں آیا۔ مولانا ظفر علی خاں نے ترکی کا دورہ کیا۔ ہندستان سے ہزاروں مسلمان ترکوں کے شانہ بشانہ لڑائی کے لیے ترکی جانا چاہتے تھے مگر انگریزوں نے اجازت نہ دی۔ البتہ مولانا محمد علی جوہرؒ نے ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی قیادت میں ایک طبی وفد ترکی بھیجا جو خاصی رقم بھی ساتھ لے کر گیا۔