Actions

تمہید، شکوہ کی اثر انگیزی

From IQBAL

انسان نے اللہ تعالیٰ سے جو شکوہ کیا تھا ،پہلے پانچ بندوں میں ( جو نظم کا تمہیدی حصہ ہے) اس کا ردّ ِ عمل اور اثرانگیزی بیان کی گئی ہے۔ اقبال بتاتے ہیں کہ میرا نالۂ بے باک اس قدر بھر پور اور پر تاثیر تھا کہ آسمانوں پر بھی اس کی بازگشت سنی گئی۔ آسمانوں اور اس کے باسیوں (فرشتے، چاند، ستارے، کہکشاں وغیرہ) میں میرے گستاخانہ شکوے سے ایک کھلبلی مچ گئی اور یہ ان کا موضوع سخن ٹھہرا۔ چونکہ عام حالات میں ایک انسان سے یہ توقع نہیں ہوسکتی کہ وہ اللہ کے سامنے ایسی گستاخی کی جرأت کرے ، اس لیے اہل آسمان حیران تھے کہ کون نادان خدا کے حضور شوخی کا مرتکب ہورہا ہے مگر جلد ہی انھیں معلوم ہو گیا کہ یہ حرکت کرنے والے حضرتِ انسان ہیں۔ فرشتوں کو اس بات کا افسوس تھا کہ پستی کایہ مکین بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں جانتا۔

انسان کے متعلق فرشتوں کا یہ طرز فکر بعینہٖ وہی ہے جو تخلیق آدم ؑکے وقت تھا، جب فرشتے انسان کی نیابتِ الہٰی پر حیران ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ خلیفہ دنیا میں فتنہ و فساد اور خوں ریزی کا مرتکب ہوگا۔ جہاں تک شوخی و گستاخی کا تعلق ہے، اس ضمن میں عابد علی عابد کہتے ہیں: ’’علامّہ مرحوم سے بہت پہلے صوفیہ اپنی شطحیات( صوفیوں کی لاف زنی) میں اس سے زیادہ گستاخانہ انداز تخاطب اختیار کر چکے ہیں‘‘۔ ( شکوہ، جوابِ شکوہ: ص ۵۶) 

بہر حال انسان کے نعرۂ مستانہ کا اثر یہ ضرور ہوا کہ خود اللہ تعالیٰ نے ’’شکوہ‘‘ کے حسنِ ادا کو سراہا اور پھر اس کا جواب مرحمت فرمایا: شکر شکوے کو کیا حسنِ ادا سے تونے ہم سخن کردیا بندوں کو خدا سے تو نے