Actions

بحضور رسالت مآبؐ

From IQBAL

اقبال سمجھتے ہیں کہ ملت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو پاسکتی ہے اور اس سلسلے میں میری کوششیں بھی کسی درجے میں کارآمد ہو سکتی ہیں، بشرطیکہ ملت اسلامیہ اپنی جدو جہد میں رسول کریمؐ کے اسوۂ حسنہ کو مشعلِ راہ بنائے۔ ۱۔ سب سے پہلے تو شاعر نے کائنات میں آں حضورؐ کی اصل حیثیت کا ذکر کیاہے۔ تیسرے بند کے پہلے شعر اور تیسرے بند کے پہلے تین مصرعوں کا مفہوم یہ ہے کہ آپؐ کی ذاتِ پاک ہی وجہِ تخلیقِ کائنات ہے۔ اس کا پس منظر یہ حدیث ہے کہ ’’ اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا‘‘[تحقیقی طور پر یہ حدیث ثابت نہیں]۔ بقول مصحفی ؔ: سارے جہاں کا تجھ کو جانِ جہاں بنایا ۲۔ پھر عربوں ( ذرۂ ریگ) نے دنیا کی قوموں میں جو امتیازی حیثیت ( طلوعِ آفتاب) حاصل کی‘ بعض مسلمان حکمرانوں نے عظمت وصولت کا نقش لوگوں کے دلوں پر بٹھایا اور مسلم بزرگوں اور صوفیا نے عوام کے دلوں کو اپنے اخلاقِ حسنہ کے ذریعے مسخر کیا تو اس کی وجہ صرف اتباعِ رسول ؐ تھی۔ مسلم حکمرانوں کا جاہ و جلال اور بزرگانِ دین کا فقر اور ان کی اخلاقی برتری ایک طرح سے اسلام کی حقانیت اور جلال و جمالِ نبوی ؐکا مظہر ہے۔ یہ بات تیسرے بند کے اگلے تین مصرعوں میں کہی ہے۔ (اقبال نے یہاں بطورِ خاص سنجر و سلیم اور جنید و بایزید کا حوالہ دیا ہے۔ سنجر ( م: ۱۱۵۷ئ) سلجوقیوں کا آخری طاقت ور فرماں روا تھا۔ وہ بہت بہادر‘ فیاض اور عادل بادشاہ تھا۔ عمر بھر دشمنوں سے بر سرِ پیکاررہا۔ اس نے اپنے چالیس سالہ دورِ حکومت میں ۱۹ مرتبہ اپنے دشمنوں کو شکست فاش دی۔ سلیم نے صرف آٹھ سال حکومت کی لیکن اس قلیل مدّت میں اس نے دولتِ عثمانیہ کی مملکت کی حدود کی زبردست توسیع کی اور اپنے آپ کو ناقابلِ شکست اور آہنی قوتِ ارادی کا مالک ثابت کیا۔ سنجر اور سلیم دونوں کی شخصیّتیں جلالِ الٰہی کے مظہر کے طور پر اقبال کو متاثر کرتی ہیں۔‘‘ (اقبال کی تیرہ نظمیں: ص۱۵۷)جنید المعروف بہ جنید بغدادی(م: ۹۱۰ئ)ابتدائی عہد کے صوفیہ میں سے تھے۔ بایزید بسطامی ( م:۸۴۷ئ) وجودی مسلک کے صوفی گزرے ہیں۔ سلطان سلیمان اعظم کا تعارف صفحہ پر ملاحظہ کیجیے) ۳: مسلمان کے لیے انفرادی راہِ نجات اور اجتماعی نشأت ثانیہ کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں۔ اس پیروی کا سرچشمہ آں حضورؐ سے محبت اور عقیدت ہونی چاہیے۔ ازروے فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:آں حضورؐ سے محبت کرنا ایک مسلمان کے ایمان کا جز ہے۔ آپؐ نے فرمایا: لَایُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَ وَلِدِہٖ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے والدین ‘ اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑ ھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔ اس کے بغیر نہ تو ظاہری عبادت( نماز ،روزے) کا حقیقی مقصد حاصل ہو سکتا ہے اور نہ انسانی عقل کائنات کی بھول بھلیوں کے معمے کو حل کر سکتی ہے۔ دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی بے اطمینانی‘ ظلم و تعدّی اور تعصّب و جہالت کا خاتمہ بھی صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ انسان سارے انسانی فلسفوں اور نظاموں کو ( جو ’’ علم، نخیلِ بے رطب‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں) چھوڑ کر محسن انسانیتؐ کے اسوۂ حسنہ کو اپنائے اور اسی کی روشنی میں اپنی سمت ِ سفر متعیّن کرکے منزل مقصود کو پالے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اس نظم کے نعتیہ یا حمدیہ ہونے کے بارے میں شارحین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یوسف سلیم چشتی ‘ غلام رسول مہر ‘ محمد عبدالرشید فاضل اور خواجہ محمد زکریا چوتھے بند:’’ لوح بھی تو‘ قلم بھی تو…‘‘ کا مشارٌ الیہ آں حضور ؐ کو قرار دیتے ہیں مگرپروفیسر اسلوب احمد انصاری‘ ڈاکٹر عبدالمغنی اور ڈاکٹر اسرار احمد کا خیال ہے کہ اس میں خطاب اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔