Actions

امت ِ مسلمہ کا کارنامہ

From IQBAL

تیسرے بند سے نظم کے اصل موضوع پر اظہارِ خیال کا آغاز ہوتا ہے۔ ۱۳ویں بند تک اقبال نے امت ِ مسلمہ کے عظیم الشان کارناموں کا تذکرہ کرکے دنیا میں اس کی حیثیت و اہمیت کو اجاگر کیا ہے ۔ سب سے پہلے ( بند ۳ تا ۵) دنیا کی حالت اور تاریخ کا منظر پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ :

ا: خدا کی ذات ازل ہی سے جملہ سچائیوں سمیت موجود تھی۔ ب: بڑی بڑی قومیں (سلجوقی، تورانی، ساسانی، یونانی، یہودی ، نصرانی ) دنیا پر چھائی ہوئی تھیں اور ان میں سے بعض کی عظیم الشان سلطنتیں بھی قائم تھیں۔ ج:لوگ شجر و حجر کو معبود بناکر شرک اور گمراہی و ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے ۔ گویا یہ پس منظر ہے امت ِ مسلمہ کے بے نظیر کارناموں کا اور اس سے تاریخ کی اسٹیج پر مسلمانوں کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ اور اب ( بند ۶ تا ۱۳) ان کارناموں کا مفصل بیان ہوتا ہے۔ اقبال بتاتے ہیں کہ ساری دنیا میں یہ شرف صرف مسلمانو ں کو حاصل ہے کہ انھوں نے خدا کے پیغام کو دنیا کے دور دراز کونوں تک پہنچا دیا ۔ روم و ایران کی فتح ان کا حیرت انگیز کارنامہ تھا۔ ان کی محنت و کاوش اور ہمت کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا میں ہر طرف جَآئَ الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُکا سماںنظر آنے لگا۔ نظم کے اس حصے میں اقبال نے تاریخ اسلام کے جن ادوار و واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے ، مختصراً ان کی وضاحت ضروری ہے: ’’دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں‘‘ کا اشارہ سلطنت عثمانیہ کے اس دور کی طرف ہے۔جب مسلمانوں کی سلطنت یونان، البانیہ، بلغاریہ، ہنگری اور آسٹریا تک پھیلی ہوئی تھی۔ پھر اس زمانے کا تصو ّر کیجیے جب اٹلی کے کچھ حصوں اور سپین پر بھی مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یورپ کے ان علاقوں میں جہاں آج کلیساؤں میں ناقوس بجتے ہیں ، کبھی ہماری اذانیں گونجتی تھیں۔ اسی طرح افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں کا علاقہ مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر ، مراکش وغیرہ بھی مسلم سلطنت میں شامل تھا ۔ ’’شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاںداروں کی‘‘ کی عملی تفسیر اس واقعے میں ملتی ہے جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلم وفد کے قائد ربعی بن عامر‘ ایرانی سپہ سالار رستم سے گفت و شنید کے لیے اس کے دربار میں گئے تو ایرانیوں نے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے دربار کو بڑے سازوسامان سے سجا رکھا تھا۔ ربعی اپنے نیزے سے قیمتی قالین کو چھیدتے ہوئے درباری ہیبت سے بے پروا ہو کر تخت کے قریب جا پہنچے اورنیزہ زمین پر مارا جو قالین کو چھیدتا ہوا زمین میںگڑ گیا۔ ساتویں بند میں بت فروشی اور بت شکنی کی تلمیح سلطان محمود غزنوی کے عظیم الشان تاریخی کارنامے فتح سومنات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ محمود نے ہندو پجاریوں کی رشوت کو ٹھکراتے ہوئے سومنات کے بت کو پاش پاش کر دیا اور کہا:’’ میں بت فروش کی بجاے بت شکن کہلانا پسند کروں گا‘‘۔ ایاز محمود کا چہیتا غلام تھا۔ درِ خیبر اکھاڑنے کا واقعہ ( بند ۹) دورِ نبویؐ میں پیش آیا ۔ خیبر یہودیوں کا قلعہ تھا جو حضورؐ کی سرکردگی میں حضرت علیؓ کے ہاتھوں فتح ہوا۔ ’’ شہر قیصر‘‘ سے مراد قسطنطنیہ (موجودہ نام استامبول)ہے جو مسلمانوں نے سلطان محمد فاتح کی سرکر دگی میں ۱۴۵۳ء میں فتح کیا ۔ ایران کے مجوسی آگ کی پوجا کرتے تھے ۔ مسلمانوں نے ایران کو فتح کرکے مجوسیت کا خاتمہ کیا اور آتش کدۂ ایران کو ٹھنڈا کر دیا۔ بحر ظلمات سے مراد بحر اوقیانوس (Atlantic) ہے ۔’’ بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے‘‘ یہ اشارہ ہے اس معروف واقعے کی طرف جب ایک مسلمان مجاہد عقبہ بن نافع نے افریقہ کے آخری سرے تک پہنچ کر اپنے گھوڑے کو بحر اوقیانوس میں ڈال دیا اور بڑی حسرت سے کہا:’’ خدیااگر یہ بحر ذخّار درمیان میں حائل نہ ہوتا تو تیرے راستے میں جہاد کرتا ہوا اسی طرح آگے بڑ ھتا ہو ا چلا جاتا‘‘۔ یہ جگہ مراکش میں شرف العقاب کے نام سے موسوم ہے۔