Actions

اظہارِ شکوہ کی توجیہ

From IQBAL

نظم کے پہلے دو بند تمہیدی ہیں جن میں اظہارِ شکوہ کی توجیہ بیان کی گئی ہے۔ یہ مسلمانوں کی موجودہ بدحالی اور پستی پر اقبال کے ردّ ِ عمل کا اظہار ہے۔ ان کے خیال میں مسلمان انحطاط کی اس کیفیت کو پہنچ چکے ہیں کہ اس پر خاموش رہنا نہ صرف اپنی ذات بلکہ ملک کے اجتماعی مفادسے بھی غداری کے مترادف ہے۔اس موقع پر قصۂ درد سنانا اگرچہ خلافِ ادب ہے اور نالہ و فریاد کایہ انداز گستاخی کی ذیل میں آتا ہے ، مگر ہم ایسا کرنے پر مجبور ہیں…… خدا مجھے معاف کرے کہ میں ( تسلیم و رضا کا روّیہ اختیار کرنے کے بجاے) اس سے شکوہ کرنے چلاہوں…… کسی لمبے چوڑے پس منظریا غیر ضروری طول طویل تمہید کے بغیر باری تعالیٰ سے براہِ راست گفت گو ، اس اسلامی تصو ّر پر مبنی ہے کہ بندہ اپنے خدا سے بلا واسطہ ہم کلام ہوسکتا ہے۔ قرآن حکیم میں فرمایا:وَقَالَ رَبُّکُمْ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (سورۃ المومن:۴۰)تمھارا رب کہتاہے: مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔

واضح رہے کہ جملہ مذاہب میں یہ انفرادیت صرف اسلام ہی کو حاصل ہے۔ ورنہ ہندو مت اور نصرانیت میں پروہت اور پادری بندے اور خدا کے درمیان واسطہ بنتے ہیں۔ علامّہ اقبال اس روّیے پر احتجاج کرتے ہیں:   

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو بدقسمتی سے مسلمانوں کے ہاں بھی اب ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو بندے اور خدا کے درمیان توسّل کا دعویٰ کرکے مذہبی اجارہ داری کے غیر اسلامی تصو ر کو فروغ دے رہا ہے۔ عابد علی عابد کہتے ہیں:’’ اقبال ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پڑ ھنے والوں کو اس طرزِ تخاطب سے آشنا کرنا چاہتا ہے… اقبال نے شکوے کے پہلے دو بندوں ہی میں بات یا موضوعِ سخن کو اس منزل تک پہنچا دیا کہ بعد کی شکوہ سرائی اور گلہ مندی بالکل مو زوں اور مناسب معلوم ہوتی ہے‘‘۔ ( شکوہ، جوابِ شکوہ: ص ۱۱)