Actions

اسلاف سے موازنہ

From IQBAL

مسلمانوں کی زبوں حالی کے سلسلۂ بیان میں ان کی انفرادی و اجتماعی خامیوں کو مزید اجاگر کرنے کے لیے نظم کے اگلے حصے ( بند: ۱۸- ۱۹) میں اقبال ؔنے مسلمانوں کے اسلاف کا ذکر چھیڑا ہے ۔ ان کے نزدیک ہمارے اسلاف اپنے اخلاق و کردار، علم و فضل اور گفتار و کردار کے اعتبار سے اس قدر بلند مرتبت اور عظیم تھے کہ ہمارے او ر ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ بند ۲۳- ۲۴ میں اقبال نے جدید تعلیم اور اس کے زیر اثر پیدا ہونے والی معاشرتی اور مجلسی خرابیوں پر تنقید کی ہے ۔یہ صورت حال منطقی ہے۔ توجیہ یہ کی ہے کہ اگر بیٹا نکھٹو ہو تو میراث سے عاق کر دیا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔ ان کی موجودہ حالت کا اسلاف سے موازنہ کرتے ہوئے ایک شعر میں نتیجے کو بڑی خوب صورتی سے بیان کر دیا ہے: وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر آخری ( ۲۵ واں بند) ایک انتباہ ہے مسلمانوں کے لیے۔ یہاں اقبال نے قدرت کے تکوینی نظام کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ دورِجدید نے دنیا کی ہرقوم کو آزمایش کے پل صراط پر لا کھڑا کیا ہے ۔ اسے بخیر و عافیت عبور کرنے کے لیے قومی بیداری اور اجتماعی کردار کی ضرورت ہے۔ جو قوم عہد ِ نو کے تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتی ، زمانہ اسے برق بن کر بھسم کر دیتا ہے اور امت ِ مسلمہ بھی اس آزمایش سے دو چار ہے۔ اس سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مسلمان اپنے ایمان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سی پختگی ، عزم اور یقین پیدا کریں، تاکہ زمانے کی برق و آتش زنی ان کے لیے گل وگلزار ثابت ہو۔