ابر
From IQBAL
ابر
اٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا
سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ سربن کا
نہاں ہوا جو رخ مہر زیر دامن ابر
ہوائے سرد بھی آئی سوار توسن ابر
گرج کا شور نہیں ہے، خموش ہے یہ گھٹا
عجیب مے کدئہ بے خروش ہے یہ گھٹا
چمن میں حکم نشاط مدام لائی ہے
قبائے گل میں گہر ٹانکنے کو آئی ہے
جو پھول مہر کی گرمی سے سو چلے تھے، اٹھے
زمیں کی گود میں جو پڑ کے سو رہے تھے، اٹھے
ہوا کے زور سے ابھرا، بڑھا، اڑا بادل
اٹھی وہ اور گھٹا، لو! برس پڑا بادل
عجیب خیمہ ہے کہسار کے نہالوں کا
یہیں قیام ہو وادی میں پھرنے والوں کا