Actions

دوسرا باب: ایران کے نوافلاطونی متبعین ارسطو

From IQBAL

باب دوم ایران کے نو افلاطونی متبعینِ ارسطو

علامہ اقبال نے اس باب میں جن اہم موضوعات پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ ان کا خلاصہ یہ ہے:

۱- ایران میں ظہور اسلام سے بہت سے تغیرات رونما ہوئے۔ عربوں نے ایرانیوں پر سیاسی اور عسکری غلبہ توپالیا مگر وہ ایرانیوں کی فلسفہ طرازیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ۲- عربوں اور ایرانیوں کی تہذیبیں دراصل سامی اور آریائی نظریات کی آئینہ دار تھیں۔ ایران میں آکر عربوں کی عمل پرستی میں کمی واقع ہوگئی تھی۔ ۳- ایرانیوں کے ساتھ میل جول نے عربوں کے اندر عجمی عادات اور یونانی نظریات میں گہری دل چسپی کو فروغ دیا۔ ۴- افلاطون اور ارسطو کی تعلیمات کے زیر اثر ایرانیوں اور عربوں میں بھی مختلف فکری، متصوفانہ اورمذہبی تحریکوں نے جنم لیا۔ ۵- فلسلفہ یونان کے چند ممتاز پیروکاروں مثلاً ابن مسکویہ، الفارابی، ابن رشد اور بوعلی سینا کے افکار و نظریات کے بنیادی پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۶- فلسفہ یونان نے بعض مسلمان فلاسفہ کو اس حد تک متاثر کیا تھا کہ وہ یونانی نظریات کی روشنی میں قرآنی تعلیمات اور اسلامی عقائد کو دیکھنے کے عادی ہوگئے تھے۔ ۷- فلسفہ یونان نے مسلمانوں کے اندر جسم و روح، مادہ و حقیقت مطلقہ کے وجود، ہستی و نیستی، کثرت و وحدت، جبر و قدر، خدا کی ذات و صفات اور دیگر نزاعی مسائل کا بازار گرم کردیا تھا۔ اس باب کے شروع میں علامہ اقبال نے ایران میں اسلام کے ظہور کے بعد پیدا ہونے والے مختلف حالات و اثرات کا تذکرہ کیا ہے اسلامی عقیدہ تعلیم نے جس طرح ایرانی افکار پر اثر ڈالا ہے وہ طریق بھی بیان کیا گیا ہے۔ بعدازاں فلسفۂ ایران یعنی عجمی افکار و تصورات نے اسلامی تعلیمات میں بھی کافی غیراسلامی عناصر شامل کیے تھے۔ اس دو طرفہ طریق تبدیلی کے مختلف عوامل و اسباب تھے۔ جب عرب مسلمانوں نے ایرانیوں پر فتح پالی تو ایران میں متعدد سیاسی، تمدنی، ثقافتی، مذہبی، سماجی اور علمی تغیرات رونما ہوئے۔ ایسا ہونا ایک قدرتی امر تھا کیوں کہ مفتوح قوم ہمیشہ فاتح قوم کے فلسفہ حیات کو قبول کرلیا کرتی ہے۔ ایران میں بھی اسلامی فتوحات کے بعد اس قسم کے ہمہ گیراثرات رونما ہوگئے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب مسلمانوں نے اہل ایران کو سیاسی اور عسکری طور پر اپنا مطیع بنالیا تھا مگر وہ ایرانی فکری عظمت کا مقابلہ نہ کرسکے۔ انھوں نے فوجی اور سیاسی لحاظ سے ایرانیوں کو اپنا محکوم بنایا لیکن میدان فلسفہ میں وہ ایرانیوں کی ذہنی ذکاوت اور فلسفیانہ موشگافیوں سے متاثر ہوگئے۔ اس فکری اثر نے اسلامی تعلیمات میں عجمی تصورات اوریونانی خیالات کو بڑے لطیف اور غیرمرئی انداز میں داخل کرکے مسلمانوں کے جذبہ عمل کو کمزور بنا دیا۔ عرب کے سوز دروں اور عجم کے حسن طبیعت نے مل کر عجیب گلکاریاں پیدا کیں۔ اس ضمن میں علامہ اقبال کے یہ خیالات ملاحظہ ہوں: جب اہلِ عرب ایران پر فتح حاصل کرچکے تو فلسفۂ ایران کی تاریخ کا نیا دور شروع ہوا۔ ریگ زار عرب کے جنگجو فرزندوں کی شمشیر زنی نہاوند میں آکر ختم ہوگئی اور اس قدیم قوم کی سیاسی آزادی بمشکل ہی حلقہ بگوشِ اسلام ہونے والے پیروان زرتشت کی ذہنی آزادی کا مقابلہ کرسکتی تھی۔ اس طرح کی کایا پلٹ کے واقعات سے تاریخ عالم کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ جب رومی حکمرانوں نے عیسائیوں پر اپنا سیاسی تسلط جما لیا تو وہ عیسائیت کی تعلیمات سے مرعوب ہوکر اس کے خود عَلم۔بردار بن گئے تھے۔ اسی طرح جب منگولیا کے فوجیوں نے ہلاکو خاں کی قیادت میں اسلامی ممالک خصوصاً عروس البلاد یعنی بغداد کوبرباد کردیا تو بعدازاں وہی خاندان مسلمان ہوکر اسلام کا خادم بن گیا تھا جس کی طرف شاعر مشرق نے خود اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: پاسباںمل گئے کعبے کو صنم خانے سے [کلیات اقبال، ص ۲۰۶] ایران جب عرب فاتحین کی عسکری فتوحات سے آزاد ہوا تو اس نے اپنی قدیم فکری روایات، اقدار شاندار تمدنی اقدار کے ذریعے عرب فاتحین کو اپنا مسحور بنالیا۔ ریگستان کی گرم آب و ہوا اور وہاں کی صحرائی زندگی کی جفا کشی سے دور رہ کر ایران میں مقیم عرب ایرانی مناظر فطرت اور ہاں کی دلفریب تمدنی آسایشات کے گرویدہ ہو کر عجمی نظریات کا شکار ہوگئے۔ عرب سامی اقدار کے حامل لیکن ایرانی لوگ آریائی عادات کے مالک تھے۔ عربوں کی علم پرستی اور اہل ایران کی بلند خیالی کی آمیزش سے نیا تمدنی دور شروع ہوگیا۔ اگرچہ اہل ایران اسلام کی دولت سے مالا مال ہوگئے تاہم سب لوگ اپنے چند قدیم آبائی عقائد کو فوراً ہی خیرباد نہ کَہ سکے۔ دو قوموں کے ملاپ نے ایک دوسرے کو خاصا متاثر کیا۔ یہ وہی دور تھا جب اسلام میں عجمی نظریات داخل ہوگئے تھے جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے: تمدن ، تصوف ، شریعت ، کلام بتان عجم کے پجاری تمام حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ اُمّت روایات میں کھو گئی بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے مسلماں نہیں ، راکھ کا ڈھیر ہے (کلیاتِ اقبال صفحہ نمبر۴۱۶) اس باہمی ردعمل پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ اس باب میں یوں لکھتے ہیں: ایران پر عرب تسخیر کی بدولت جو سیاسی انقلاب رونما ہوا اس نے آریائیوں اور سامیوں کے درمیان باہمی ردعمل کا آغاز کردیا تھا۔ اس وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایرانی اپنی ظاہری زندگی کو زیادہ تر سامی انداز میں رنگ لیتا ہے۔ لیکن وہ بڑی خاموشی کے ساتھ اسلام کو اپنی آریائی فکری عادات کے مطابق تبدیل کردیتا ہے۔ مغرب میں یونانیت ۱؎(Hellenic) پرست سنجیدہ عقل نے ایک اور سامی مذہب یعنی عیسائیت کو اپنے رنگ میں پیش کیا تھا۔ ان دونوں حالتوں میں تشریح و تعبیر کے نتائج حیرت انگیز طور پر یکساں دکھائی دیتے ہیں۔ ہر ایک حالت میں تعبیری عقل کا مقصد یہ تھا کہ فرد پر خارج سے نافذ کیے جانے والے مطلق قانون کے انتہا پسندانہ جمود کی سختی کو نرم کردیا جائے۔ مختصر طور پر ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ یہ ظاہر کوباطنی رنگ دینے کی ایک کوشش ہے۔ عرب زیادہ تر جفا کشی اورعمل پرستی کے پیکر تھے اورایرانی عموماً نازک مزاج، عقل کے زناری اور عیش کوشی کے عادی تھے۔ عرب اسلامی شریعت پر آسانی سے عمل پیرا ہو جاتے تھے۔ اس کے برعکس ایرانی ذہن شرعی قیود و حدود کی سختی کا عادی نہیں تھا۔ بنابریں ایرانی لوگ شریعت کے سخت احکام کو عقلی دلائل اور حیلہ جوئی کے ذریعہ ذرا نرم انداز میں بیان کرنے کے خواہاں تھے۔ اس انداز فکر نے شریعت میں عقلی حیلہ جوئی کا عنصر شامل کردیا۔ اس فکری تبدیلی کا ایک سبب فلسفہ یونان کا مطالعہ بھی تھا۔ فلسفۂ ایران اور فلسفہ یونان کے مطالعہ نے اس طرح عرب مسلمانوں کے اندر ذہنی تبدیلی پیدا کردی۔ یونانی فلسفیانہ نظریات نے اگرچہ مقامی تفکر کی نشوونما کو کسی قدر روک دیا تھا تاہم انھوں نے زمانہ ماقبل اسلام کے ایرانی افکار کے خالصتاً معروضی اور خارجی رویے کو بعد میں آنے والے مفکرین کے داخلی رویے میں بدل دیا۔ علامہ اقبال کے خیال میں بیرونی فلسفہ کے زیر اثر جب ایران کے قدیم موحدانہ رحجان نے آٹھویں صدی کے آخر میں دوبارہ ظہور کیا تو اس نے بہت زیادہ روحانی پہلو اختیار کرلیا اور اس نے بعدازاں ترقی پاکر نور اور ظلمت کی پرانی ایرانی ثنویت کو زندہ کیا اور اسے روحانیت کارنگ دے دیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ یونانی افکار و نظریات نے نازک ایرانی ذہن کو نہ صرف حیاتِ نو عطا کی بلکہ اس کی ترقی میں بھی حصہ لیا۔ بعد میں یونانی نظریات ایران میں رونما ہونے والے عام ذہنی انقلاب میں جذب ہو کر رہ گئے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فلسفۂ ایران کی طرح فلسفہ یونان نے بھی مسلمان مفکروں اور فلسفیوں کو خاصا متاثر کیا تھا۔ جب دو تہذیبوں کا ملاپ ہوتا ہے تو افکار و اقدار کا باہمی تبادلہ لازمی ہوا کرتا ہے۔ یہی معاملہ اسلامی افکار اور یونانی فلسفہ کے ملاپ کے وقت پیش آیا۔ مسلمان مفکرین خاص طور پر افلاطون اور ارسطو کے اثرات قبول کرکے ان کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کاجائزہ لیتے رہے۔ علامہ اقبال عام طور پر افلاطون کے افکار کے ناقد رہے ہیں۔ بہرحال وہ فلسفہ یونان کے اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ حکمت یونانی کی جوئے رواں حران اور شام کی راہ سے گزر کر مسلمانان مشرق تک پہنچی تھی۔ شامیوں نے جدید ترین فلسفہ یونانی یعنی نو افلاطونیت (اشراقیت) کو اختیار کرکے اپنے خیال کے مطابق ارسطو کے اصل فلسفہ کو مسلمانوں تک منتقل کیا۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ عرب اور ایرانی مسلمان فلاسفہ افلاطون اور ارسطو کی مزعومہ حقیقی تعلیمات کے بارے میں عرصہ دراز تک بحث و نزاع کا شکار رہے اور انھیں کبھی یہ خیال نہ آیا کہ ان دونوں فلسفیوں کے افکار کے مکمل ادراک کے لیے یونانی زبان کو جاننا کس قدر ضروری ہے۔ ان کی لاعلمی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ وہ پلوٹینس فلاطینوس (Plotinus) کی ایک کتاب اینڈز (Enneads) کے ملخض ترجمہ کو ’’ارسطو کی دیینات‘‘ سمجھتے رہے۔ فلسفہ یونان کے ان دو عظیم ماہرین کو واضح طور پر سمجھنے کے لیے انھیں صدیاں ہوگئیں۔ اس میں پھر بھی شک ہے کہ انھوں نے انھیں کلیتاً سمجھتا ہو۔ علامہ اقبال نے اپنی اس اولین فلسفیانہ تصنیف ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ امر حتمی نہیں کہ ایرانی اور عرب مفکرین نے افلاطون اور ارسطو کے نظریات کو صحیح سمجھا تھا اپنی ایک اور فلسفیانہ کتاب تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (The Reconstruction of Religious Thought In Islam) میں انھوں نے فلسفہ یونان کے ان عربی اور عجمی فلسفیوں پر کافی تنقید کی ہے جنھوں نے قرآنی حکمت کی بجائے افلاطون، سقراط اور ارسطو کے خیالات کی اندھا دھند تقلید کی تھی۔ وہاں انھوں نے یہ بات نہیں کہی کہ یہ عربی اور عجمی فلاسفہ فلسفہ یونان سے بالکل ناآشنا رہے تھے۔ بہرحال اس کتاب میں انھوں نے ہمدردانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ اصل میں ان دو یونانی مفکرین کی کتابوں کا ترجمہ کرنے والوں نے بڑی لاپروائی سے ترجمہ کرکے ایرانی اور عربی فلاسفہ کے لیے بہت سی ذہنی دشواریاں پیدا کردی تھیں۔ علامہ اقبال بعدازاں حکمت یونان کے چند ممتاز دلدادہ مسلمان فلاسفہ کاذکر چھیڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ الفارابی اور ابن مسکویہ کی نسبت بو علی سینا زیادہ واضح اورجدت طراز واقع ہوا ہے۔ اندلس کا رہنے والا ابن رشد اگرچہ اپنے پیش روئوں کی نسبت ارسطو سے زیادہ قریب ہے تاہم اسے بھی ارسطو کے فلسفے پر مکمل دسترس حاصل نہیں تھی۔ ان حالات کے پیش نظر ان پر غلامانہ نقالی کا الزام دھرنا انصاف پر مبنی نہیں ہوگا کیوں کہ ان کی تاریخ تفکر حماقتوں کے مایوس کن مواد میں چھان بین کی ایک مسلسل سعی ہے جسے فلسفہ یونان کے لاپروا مترجمین نے پیدا کردیا تھا۔ اندریں حالات انھیں افلاطون اور ارسطو کے افکار کے بارے میں زیادہ تر دوبارہ غور و فکر کرنا پڑا تھا۔ اصل میں ان مسلمان فلاسفہ کی تشریحات و وضاحت کی بجائے انکشاف حقیقت کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ مزیدبرآں ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ آزادی کے ساتھ نیانظام فکر پیش کرتے۔ ایسی صورت میں بدقسمتی سے ان کا ذہن رسا مزاحمت پیدا کرنے والی ان حماقتوں کے اندر مقید ہو کر رہ گیا جنھیں بتدریج مسلسل محنت ہی ختم کرکے باطل سے حق کو باہر لاسکتی تھی۔ فلسفہ یونان کے ایرانی طلبا ۱- ابن مسکویہ (Ibn Maskawaih) ابن مسکویہ کو تاریخِ فلسفۂ اسلام میں بلند مقام حاصل ہے۔ اس کی پیدایش دسویں صدی عیسوی میں ہوئی اور اس کی وفات کا سن ۱۰۳۰ء ہے۔ ابن مسکویہ نے یونانی افکار کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ کرکے اپنے نظریات کو بیان کیا ہے۔ ذات باری کے وجود، علم، وحدت و کثرت اور روح سے متعلق اس کے تصورات علامہ اقبال کی توجہ کا مرکز بنے ہیں۔ انھیں اس بات کا شکوہ ہے کہ ڈاکٹر بوئر (Dr. Boer) نے اپنی مشہور کتاب فلسفہ اسلام (The Philosophy of Islam) میں الفارابی اور بو علی سینا پر تو مفصل بحث کی ہے لیکن اس نے ابن مسکویہ کے فلسفے کو صرف اس کی اخلاقی تعلیمات تک محدود رکھا تھا۔ علامہ موصوف کی رائے میں ابن مسکویہ کے مابعد الطبیعیاتی نظریات بلاشبہ الفارابی کے تصورات سے زیادہ باضابطہ ہیں۔ فلسفۂ عجم کو ترقی پذیر بنانے میں ابن مسکویہ نے جو نمایاں کردار ادا کیا ہے اسے وہ موضوع بحث بناتے ہیں۔ اس بحث کو چھیڑنے سے قبل وہ حکیم رازی (وفات ۹۳۲ئ) کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اپنی عجمی عاداتِ فکر کے عین مطابق رازی نور کو پہلی خلق شدہ چیز خیال کرتا تھا۔ علاوہ ازیں وہ مکان، زمان اور مادے کے دوام کابھی قائل تھا۔‘‘ اس کے فوراً بعد ہی وہ ابن مسکویہ کا مختصر تعارف ان الفاظ میں کرواتے ہیں۔ ’’ابن مسکویہ کا پورا نام ابو علی محمد ابن محمد ابن یعقوب تھا مگر وہ ابن مسکویہ کے نام سے معروف ہے۔ وہ سلطان عضد الدولہ کا خزانچی اور ایران کے مشہور ترین خدا پرست مفکرین، اطبا، معلمینِ اخلاق اور مورخین میں سے تھا۔ میں اس کی مشہور تصنیف الفوز الاصغر (مطبوعہ بیروت) میں سے اس کے نظام فکر کا ذیل میں مختصر سا حال بیان کرتا ہوں۔‘‘ وہ مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت اس مشہور فلسفی کے افکار کا خلاصہ پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی رائے بھی ظاہر کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ متعلقہ عنوانات یہ ہیں: ۱- حقیقتِ مطلقہ کا وجود اس سے بیشتر یہ بتایا جاچکا ہے کہ خدا تعالیٰ اصل کائنات اور سب غایتوں کی غایت اولیٰ ہے۔ اشیائے کائنات کے وجود کا اصلی سرچشمہ اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ وہ عام معبود (الہ) نہیں بلکہ معبودِ خاص (اللہ) ہے۔ دنیا کی تمام دیدنی اور نادیدنی مخلوقات کا اصلی خالق اور مالک وہی ہے۔ اشیائے دو جہاں کی تخلیق کی بحث آخرِکار اس پر جاکر ختم ہوجاتی ہے اس لیے وہ خدائے لم یزل کہلاتا ہے۔ قرآنِ حکیم کے الفاظ میں و الی ربک المنتھی (اور تیرے پروردگار تک ہر چیز کی انتہا ہے) وہی ذات بابرکات مخلوق کی ابتدا اور انتہا ہے ھو الاول و ھو الاخر وہی حقیقت مطلقہ ظاہر اور باطن میں جلوہ گر ہے۔ ھو الظاہر و ھو الباطن۔ کائنات کی اس آخری حقیقت کے بارے میں مسلم اور غیرمسلم مفکرین نے اپنے اپنے قیاس کی روشنی میں اس کے وجود حقیقی کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ ابن مسکویہ بھی اس اہم موضوع پر اظہار رائے کیے بغیر نہ رہ سکا چنانچہ اس ضمن میں اس کے تصور خدا کا خلاصہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔ ابن مسکویہ ارسطو کے نظریہ حرکت کو سامنے رکھ کر خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ارسطو کے تتبع میں طبعی حرکت کی حقیقت پر مبنی دلیل کا اعادہ کرتا ہے کہ تمام اجسام تبدیلی کی تمام شکلوں پر محیط حرکت کی خاصیت کا جزو لاینفک ہیں۔ اس حرکت کا اجسام کی فطرت سے ظہور نہیں ہوتا اس لیے حرکت اولین محرک کے خارجی منبع کی متقاضی ہوا کرتی ہے۔ عالم اسلام کے یہ مایہ ناز فلسفی اور مشرق کے عظیم شاعر ارسطو اور ابن مسکویہ کے اس طرز استدلال کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں ہمارا تجربہ اس مفروضے کی تائید نہیں کرتا کہ حرکت اجسام کی ذات میں داخل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر انسان آزادانہ حرکت کی استعداد رکھتا ہے لیکن مندرجہ بالا اُصول کی بنا پر اس کے جسم کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے سے جدا ہونے کے بعد بھی حرکت کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔ اس لیے حرکت پذیر عامل کے سلسلے کو ایک ایسی غیر منقولہ علت پر جاکر رک جانا چاہیے جو دُوسری چیزوں کو حرکت میں لاتی ہو۔ ابتدائی علت کی حرکت کا فقدان ضروری ہے کیو نہ علتِ غائی کی حرکت کے مفروضے کی رو سے غیر محدود رجعت قہقری لازم ہوگی جو بالکل لغو بات ہے۔ اصلی غیر حرکت پذیر محرک ایک ہی ہوتا ہے۔ بہت سے بنیادی محرکین کی فطرت میں ضرور کوئی چیز مشترک ہونی چاہیے تاکہ ان کو ایک ہی خانے میں لایا جاسکے۔ اس کامطلب یہ بھی ہے کہ ان کو ایک دوسر ے سے ممیّز کرنے کے لیے ان میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ جزوی مطابقت اور اختلاف ان کے اپنے اپنے جوہر میں ترکیب کے لزوم کی دلالت کرتا ہے۔ اس سے بیشتر یہ بات بتائی جاچکی ہے کہ ترکیب درحقیقت حرکت ہی کی ایک شکل ہے۔ اس لحاظ سے حرکت کی ابتدائی علت میں ترکیب موجود نہیں ہوسکتی۔ علامہ اقبال مادی اور فانی اشیا میں حرکت اور تبدیلی کے قائل ہیں۔ ان کی رائے میں خدا تعالیٰ چونکہ غیر مادی اور غیر فانی ہے اس لیے اس کی ذات میں حرکت و تغیر موجود نہیں۔ دوسرے لفظوں میں خدا ہی تمام مخلوقات کا منبعِ وجود ہے۔ اس سے قبل کسی اور ہستی کے وجود کو تسلیم کرنا گویا خدا کی ذات سے پہلے کسی اورمحرک کو ماننے کے مترادف ہے۔ وہ اس بحث کو ختم کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اولین محرک لازوال اور غیر مادی ہوتا ہے۔ چونکہ نیستی سے ہستی کی تبدیلی اسی قسم کی حرکت ہے اور مادہ ہمیشہ کسی نہ کسی طرح کی حرکت کے تابع ہوتا ہے۔ اس لیے نتیجہ یہ نکلا کہ فانی اور مادی شے کو حرکت میں رہنا چاہیے۔‘‘ ۲- حقیقتِ مطلقہ کا علم ابن مسکویہ خدا کے وجود کی بحث کے علاوہ خدا تعالیٰ کے عرفان کی بحث بھی کرتا ہے۔ جس عظیم ہستی نے اس عظیم الشان کائنات اور مختلف النوع مخلوقات کو پیدا کیا ہے اس کی کنہ کے ادراک کا ذوق بھی انسانی ذہن میں انگڑائی لینے لگتا ہے۔ کائنات کی جملہ چیزیں دراصل خدا تعالیٰ کی قدرت کی ظاہری نشانیاں ہیں۔ حیرت انگیز صفت کو دیکھ کر بعض اذہان میں اس کے صانع کو جاننے کی زبردست خواہش پائی جاتی ہے۔ عام انسان تو اندھوں کی طرح ان حسین آیات کے پاس سے گزر جاتے ہیں۔ قرآن حکیم کی تعلیمات کی رو سے خالق کائنات کی نشانیاں آفاق کے علاوہ انفس میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے مظاہر فطرت اور قلبی واردات دونوں ہی حکمت خداوندی پر دال ہیں۔ اس بارے میں خدا کے علم اور معرفت کی آرزو کی شدت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبال ابن مسکویہ کے نظریہ علم پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر قسم کے ذاتی علم کی ابتدا محسوسات سے ہوتی ہے جو بتدریج مدرکات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ تعقل کے ابتدائی مراحل مکمل طور پر خارجی حقیقت کی موجودگی کے تابع ہوتے ہیں۔ علمی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ مادے کی غلامی کے بغیر سوچنے کی صلاحیت پیدا کی ہے۔ اگرچہ خیال کا مادے سے آغاز ہوتا ہے تاہم اس کا مقصد درجہ بدرجہ اپنے امکان کی بنیادی شرط (مادہ) سے رہائی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے تخیل اس کے اعلیٰ مرحلے کا نام ہے۔ تخیل دراصل کسی چیز کی خارجی معروضیت کے حوالے کے بغیر اس چیز کی نقل یا شکل کو نہاں خانۂ دماغ میں محفوظ رکھنے اور اسے دوبارہ پیدا کرنے کی طاقت کا دوسرا نام ہے۔ تصورات کی تشکیل کی بدولت خیال مادیت سے رہائی پاکر ایک اور بلند تر مرحلے پر پہنچ جاتا ہے۔ مدرکات کے مقابلے اور انجذاب کے نتیجے میں رونما ہونے کی حیثیت سے تصور کو مکمل طور پر محسوسات کی کثیف علت سے آزاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تصور کو ادراک پر مبنی جان کر ہمیں اس عظیم اختلاف کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جو تصور اور ادراک کی فطرت میں پایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ انفرادی شعور مسلسل تبدیلیوں کی وجہ سے مدرکات پر مبنی علم کے کردار کو متاثر کردیتا ہے اس لیے افراد کا علم ثبات کے عنصر سے محروم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آفاقی شعور قانون تغیر سے اثر پذیر نہیں ہوتا۔ افراد تبدیل ہوتے رہتے ہیں مگر آفاق گیر وجود اپنی حالت پر قائم رہتا ہے۔ علامہ اقبال اس بحث کو ختم کرتے ہوئے مادے اور خدا کے درمیان امتیاز پر مزید روشنی یوں ڈالتے ہیں۔ مادے کا خاصہ یہ ہے کہ وہ قانون تغیر کے ماتحت ہوتا ہے۔ ایک چیز جس قدر مادے سے زیادہ آزاد ہوتی جائے گی اس قدر وہ تغیر سے کم اثر قبول کرتی جائے گی۔ خدا چونکہ مادے سے بالکل آزاد ہے اس لیے وہ کلیتاً بے تغیر و تبدل ہے۔ مادے سے خدا تعالیٰ کی مکمل آزادی ہمارے لیے یہ بات مشکل یا ناممکن بنا دیتی ہے کہ ہم اس کی ذات کے بارے میں کوئی صحیح تصور قائم کرسکیں۔ جو چیز خود مادی اشیا سے ترکیب پاکر بنے وہ خدا کا درجہ کیسے حاصل کرسکتی ہے؟ جوخود اپنی ذات کے لیے دوسروں کا محتاج ہو وہ کیوں کر الوہیت کی شان کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے؟ خدا تعالیٰ وہ ازلی اور ابدی ہستیِ مطلق ہے جو ہر چیز کی صانع تو ہے مگر وہ خود مصنوع نہیں۔ بہرحال تمام فلسفیانہ تربیت کا مقصد ہی خالص تصورات پر مبنی ’’تشکیلِ تصور‘‘ یا گہرے غور و فکر کی صلاحیت کو ترقی یافتہ بنانا ہے تاکہ مسلسل مشق بالکل غیر مادی ہستی کے تصور کو ممکن بنادے۔ یہ ہے ابن مسکویہ کے نظریۂ علم کا نچوڑ۔ ۳- وحدت سے کثرت کی طرح پیدا ہوتی ہے؟ فلاسفہ اور مفکرین کائنات میں بکھری ہوئی کثرت اشیا کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے مضطرب نظر آتے ہیں۔ وہ مختلف مخلوقات اور گونا گوں چیزوں کو دیکھ کر ان کے خالق کی صفتِ تخلیق سے حیران و پریشان ہوتے ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انھیں ایک ہستی نے پیدا کیا ہے یا یہاں ایک سے زیادہ خالق ہیں۔ اگر خدا ہی ان سب کا خالق ہے تو پھر اس نے وحدت سے کثرت کیسے پیدا کی؟ وحدت و کثرت کا یہ مسئلہ نہ صرف فلسفیوں، مفکروں اور ارباب تصوف و شریعت کے لیے دل چسپی کا باعث ہے بلکہ سائنس دان بھی اسے سائنسی انداز میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں تک ابن مسکویہ کے نظریۂ وحدت و کثرت کا تعلق ہے اسے یہاں بڑے ہی مختصر طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ علامہ اقبال وضاحت کی خاطر اس ضمن میں ابن مسکویہ کی علمی تحقیقات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: (ا) آخری عالم یا علتِ غائی نے کائنات کو نیست سے ہست کیا ہے ابن مسکویہ کہتا ہے کہ مادہ پرست مادے کی بقا میں یقین رکھتے ہیں اور اس کی ظاہری ہیئت کو خدا کی سرگرمی سے منسوب کرتے ہیں۔ تاہم یہ امر مسلمہ ہے کہ جب مادہ ایک شکل سے دوسری شکل میں جاتا ہے تو اس کی سابقہ شکل مکمل طور پر معدوم ہو جاتی ہے ۔ اگر یہ مکمل طور پر معدوم نہ ہو تو پھر لازماً اسے یا تو کسی دوسرے جسم میں داخل ہونا چاہیے یا اسی پرانے جسم میں اپنی ہستی کو قائم رکھنا چاہیے۔ پہلی حالت کی روزمرہ کے تجربے سے تردید ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ہم موم کی گیند کو ایک ٹھوس مربع کی شکل میں تبدیل کردیں تو گیند کی گولائی کسی دوسرے جسم میں داخل نہیں ہوتی۔ دوسرامتبادل طریقہ بھی ناممکن ہے کیوں کہ اس سے یہ لازمی نتیجہ نکلے گا کہ دو متضاد شکلیں یعنی گولائی اور لمبائی ایک ہی چیز میں موجود ہوسکتی ہیں۔ بنابریں یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جب کوئی نئی شکل معرض وجود میں آتی ہے تو اس کی ابتدائی شکل کلیتاً نیست و نابود ہو جاتی ہے۔ اس دلیل سے یہ بات نتیجہ خیز طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ صفات مثلاً شکل اور رنگ وغیرہ عدم محض سے معرض وجود میں آجاتی ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ صفت کی طرح جوہر بھی فانی ہے ہمیں مندرجہ ذیل مفروضات کی حقیقت تک رسائی حاصل کرنی چاہیے: ۱- مادے کا تجزیہ مختلف عناصر کی تقسیم پر منتج ہوتا ہے جس کی کثرت کو کم کرکے ایک سادہ عنصر میں پیش کیا جاتا ہے۔ ۲- شکل اور مادے کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ مادے میں کسی قسم کی تبدیلی اس شکل کو نیست و نابود نہیں کرسکتی۔

ان دو مفروضات (قضایا) کو مدنظر رکھ کر ابن مسکویہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ جوہر کی ابتدا وقت میں ہوئی تھی۔ شکل کی طرح مادے کے وجود کا بھی تو آغاز ہونا چاہیے تھا کیوں کہ مادے کی بقا شکل کے دوام کے لیے بھی لازمی ہے۔ اس سے قبل ہم دیکھ چکے ہیں کہ شکل کو غیرفانی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس دلیل سے ابن مسکویہ یہ ثابت کرنے کی سعی کررہے ہیں کہ شکل اور مادہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ مادے کو اپنے خارجی وجود کے لیے شکل کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی طرح مادے کے بغیر شکل کا وجود ممکن نہیں۔ اس باہمی ربط کو بیان کرچکنے کے بعد وہ یہ بات بھی ثابت کرتے ہیں کہ شکل عدم سے وجود میں لائی جاتی ہے۔ جب شکل کا یہ معاملہ ہے تو لازمی طور پر مادہ بھی عدم محض سے وجود میں آیا ہوگا۔ دوسرے لفطوں میں شکل کی طرح مادہ بھی فانی ہے اور وہ ازلی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جو چیز ازلی اور غیر فانی نہ ہو وہ کس طرح دوسری چیزوں کی خالق ہوسکتی ہے؟ خدا تعالیٰ کی ذاتِ ہمہ صفات چونکہ ازلی اور ہمیشہ رہنے والی ہے اس لیے وہی ہستی بے شمار مخلوقات و اشیا کی خالق قرار دی جاسکتی ہے۔ اس دلیل کے سہارے ابن مسکویہ خدا کو غیرفانی خالق اور مادے (Matter) کو فانی شے ثابت کرتے ہیں۔ (ب) تخلیق کا طریق کار وحدت و کثرت کے موضوع پر بحث کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فاضل مصنف کہتا ہے کہ ہمیں ہر طرف چیزوں کی بے پایاں کثرت دکھائی دیتی ہے۔ اس بے پایاں کثرت کا سبب کیا ہے؟ وحدت سے کثرت کیسے پیدا ہوسکتی تھی؟ ابن مسکویہ کہتا ہے کہ جب ایک علت لاتعداد مختلف معلولات (اثرات) پیدا کرتی ہے تو اس کی کثرت مندرجہ ذیل اسباب میں سے کسی ایک پر منحصر ہوسکتی ہے: ۱-علت مختلف قوتوں کی مالک ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر انسان مختلف عناصر اور قوتوں کا حامل ہونے کی حیثیت سے مختلف اعمال کا سبب بن سکتا ہے۔ ۲-مختلف قسم کے اثرات پیدا کرنے کے لیے ایک ہی علت مختلف ذرائع استعمال کرسکتی ہے۔ ۳-ایک ہی علت مختلف قسم کے مواد پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ ان مفروضوں میں سے کوئی بھی مفروضہ کائنات کی علت نمائی یعنی خدا کی نوعیت کے بارے میں درست نہیں ہوسکتا۔ چونکہ اس کی ذات کسی قسم کی آمیزش سے پاک ہے اس لیے یہ مفروضہ کہ وہ ایک دوسرے سے ممیّز مختلف قوتوں کامالک ہے، بدیہی طور پر بیہودہ ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اس نے کثرت پیدا کرنے کے لیے گوناں گوں ذرائع استعمال کیے ہیں تو پھر ان ذرائع کا خالق کون ہے؟ اگر علت غائی کے علاوہ کسی اور علت کے تخلیقی عمل نے ان ذرائع کو جنم دیا ہے تو علت غائی کی کثرت کو ماننا پڑے گا۔ اس کے برعکس اگراس علت غائی نے بذات خود یہ ذرائع تخلیق کیے ہیں تو اس نے ان ذرائع کو پیدا کرنے کے لیے دیگر ذرائع کو جنم دیا ہوگا۔ تخلیقی عمل کے طور پر یہ تیسرا مفروضہ بھی ناقابلِ قبول ہے۔ ایک عامل کے اتفاقیہ عمل سے بہت سی اشیا ظہور پذیر نہیں ہوسکتیں۔ نتیجہ کے طور پر ہمارے لیے اس مشکل کا حل یہ ہے کہ ہم اس بات کو مان لیں کہ علت غائی نے شروع میں صرف ایک چیز کو پیدا کیا جس نے بعدازاں دوسری چیزوں کو جنم دیا۔ اپنا یہ نظریہ تخلیق کائنات بیان کرنے کے دوران میں ابن مسکویہ ان عام نو افلاطونی مظاہر کو بیان کرتا ہے جو درجہ بدرجہ کثیف ہوتے گئے حتیٰ کہ ہم ابتدائی عناصر تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ بنیادی عناصر باربار ترتیب پاتے ہیں اور ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے زندگی کی اعلیٰ شکلیں اختیار کرلیتے ہیں۔ ابن مسکویہ کے تصور ارتقا کا خلاصہ پاک و ہند کی ایک جید علمی شخصیت مولانا شبلی نعمانی نے اپنی بلند پایہ تصنیف علم الکلام میں بیان کیا ہے، علامہ اقبال ابن مسکویہ کے نظریہ ارتقائے کائنات کی جامع و مانع توضیح کے لیے مولانا شبلی کا درج ذیل اقتباس پیش کیے بغیر نہ رہ سکے۔ مولانا شبلی کے اردو الفاظ کو وہ انگریزی زبان کا جامہ پہناتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے: بنیادی جواہر (اشیا) کی ترتیب و ترکیب نے زندگی کی پست ترین شکل یعنی عالم جمادات کو جنم دیا۔ ارتقا کا بلند تر مرحلہ عالم نباتات تک پہنچ جاتا ہے۔ عالم نباتات میں سب سے پہلے خود رو گھاس نمودار ہوتی ہے۔ بعد میں پودے اور مختلف النوع درخت ظاہر ہوتے ہیں۔ ان میں بعض حیوانی خصوصیات کے حامل ہونے کی وجہ سے عالم حیوانات کی سرحد کو چھونے لگتے ہیں۔ عالم نباتات اور عالم حیوانات کے درمیان زندگی کی ایک خاص شکل ہوتی ہے جو نہ تو حیوانی ہوتی ہے اور نہ ہی نباتاتی بلکہ اس میں دونوں کی خصوصیات شامل ہوتی ہیں مثلاً مرجان (مونگا)۔ زندگی کی اس درمیانی منزل سے پرے پہلا قدم قوت حرکت کی ترقی اور زمین پر رینگنے والے چھوٹے چھوٹے کیڑوں میں چھونے کا احساس ہے۔ طریق اختلاف کے سبب احساس لمس اور دوسرے حواس کو اجاگر کرتا ہے یہاں تک کہ ہم بلند تر حیوانات کے مرحلے تک جاپہنچتے ہیں جن میں اعلیٰ درجے کی ذہانت ظاہر ہوتی ہے۔ بوزنہ (بندر) انسانیت کی سرحد کو چھونے لگتا ہے جو مزید تدریجی ترقی کے ذریعے سیدھی قامت اور انسانوں جیسی قوت ادراک کا حامل ہو جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر حیوانیت ختم ہو جاتی ہے اور اس سے آگے انسانیت کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ مولانا شبلی نعمانی سے قبل ایک مسلمان مفکر نظامی عروضی سمرقندی نے اپنی کتاب چہار مقالہ میں ارتقا کے موضوع پر اپنے خیالات کااظہار کیا تھا۔ علاوہ ازیں مولانا روم نے بھی اپنے اشعار میں مختلف انداز سے اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا: آمدہ اول بہ اقلیم جماد دز جمادی در نباتی اوفتاد ڈارون نے موجودہ دور میں اس کی سائنسی اور مادی لحاظ سے تعبیر پیش کی ہے۔ اردو زبان کے ایک معروف شاعر اکبر الہ آبادی نے اسے طنز و مزاح کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا:

   ع		ڈارون بولا بوزنہ ہوں میں

بہرحال نظریہ ارتقائے کائنات کئی مسلم مفکرین اور شعرا کا محبوب موضوعِ سخن رہا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی اس کتاب میں ابن مسکویہ کے تصور تخلیق کائنات اور نظریہ ارتقا کا تذکرہ ضروری خیال کرتے ہوئے کسی قدر اپنا نقطہ نگاہ بھی بیان کردیا ہے۔ ۴- روح انسانی روح کی نوعیت اور اصلیت کے بارے میں بھی مختلف فلسفیانہ تعبیرات اور صوفیانہ توضیحات سے کام لیا گیا ہے۔ روح اور مادہ، روح اور جسم، روح اور خدا کے باہمی ربط پر لاتعداد اربابِ حکمت اور اصحاب تصوف و معرفت نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ابن مسکویہ کے فلسفیانہ نظام میں اس قسم کی روحانی بحث کا تذکرہ بھی پایا جاتا ہے چنانچہ علامہ اقبال ابن مسکویہ کے تصور روح کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ روح کی آزاد زندگی کا ادراک کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں انسانی علم کی نوعیت کی جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ ہم اس امر سے واقف ہیں کہ مادے کی یہ لازمی خاصیت ہے کہ یہ بیک وقت دو مختلف شکلیں اختیار نہیں کرسکتا۔ مثال کے طور پر چاندی کے ایک چمچے کو چاندی کے گلاس میں تبدیل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ چمچے کی موجودہ شکل برقرار نہ رہے۔ یہ خاصیت تمام اجسام میں پائی جاتی ہے۔ وہ جسم جو اس خاصیت کا حامل نہیں اسے جسم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اب جب ہم ادراک کی نوعیت کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ انسان میں ایک ایسا اُصول پایا جاتا ہے جو بیک وقت ایک سے زیادہ چیزوں کا علم حاصل کرکے ایک ہی وقت میں مختلف شکلیں اختیار کرسکتا ہے۔ یہ اُصول مادی نہیں ہوسکتا کیوں کہ اس میں مادے کی بنیادی خاصیت کا فقدان ہوتا ہے۔ روح کا لب لباب (جوہر) یکساں وقت پر کئی اشیا کا ادراک کرنے کی طاقت پر مشتمل ہوتا ہے لیکن یہاں یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ اُصولِ روح اپنی اصلیت (جوہر) کے اعتبار سے یا تو مادی ہوسکتا ہے یا مادے کا فعل۔ مندرجہ ذیل وجوہات کے پیش نظر روح مادے کا فعل نہیں ہوسکتی: (الف) مختلف اشکال اور مختلف احوال اختیار کرنے والی چیز بذاتِ خود ان اشکال و احوال کا حصّہ نہیں ہوسکتی۔ مختلف رنگوں کو حاصل کرنے والے جسم کو اپنی فطرت کی رو سے بے رنگ ہونا چاہیے۔ اگرچہ روح خارجی اشیا کے ادراک میں مختلف شکلیں اور حالتیں اختیار کرلیتی ہے تاہم اسے ان شکلوں کا حصہ نہیں کہا جاسکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابن مسکویہ نے عصری نفسیاتِ استعداد کی حمایت نہیں کی۔ اس کی رائے میں مختلف ذہنی کیفیات بذات خود روح کے گوناگوں تغیرات ہیں۔ (ب) صفات مستقل طور پر تغیر پذیر رہتی ہیں۔ عالم تغیرات سے ماورا کوئی مستقل زیریں تہ تو ضرور ہونی چاہیے جو ہمارے ذاتی تشخص کی بنیاد بنے۔ علامہ اقبال اس نامور مسلمان فلسفی کے نظریہ روح کی تلخیص کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: یہ ظاہر کرچکنے کے بعد کہ روح کومادے کافعل قرار نہیں دیا جاسکتا ابن مسکویہ یہ ثابت کرتا ہے کہ روح اپنی اصل کے اعتبار سے غیر مادی ہوتی ہے۔ اس کے پیش کردہ چند دلائل ملاحظہ ہوں… ۱- ایک ہیجان (زبردست جذبہ) کو محسوس کرنے کے بعد حواس خاص وقت تک کمزور تر ہیجان کا ادراک نہیں کرسکتے تاہم علم کے ذہنی عمل کا معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ ۲- جب ہم کسی دقیق موضوع پر غور و فکر کرتے ہیں توہم کوشش کرتے ہیں کہ ہم اپنے گرد و پیش کی ان تمام چیزوں سے مکمل طور پر اپنی آنکھیں بند کرلیں جو ہماری روحانی سرگرمی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ اگر روح بنیادی طور پر مادی ہو تو اسے کسی رکاوٹ کے بغیر اپنی سرگرمی جاری رکھنے کے لیے عالم مادیات سے گریز اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ۳- کسی شدید جذبے کا ادراک ہماری حس کو کمزور اور بعض اوقات مجروح کردیتا ہے۔ اس کے برعکس عام تصورات اور خیالات کے علم سے عقل کو تقویت ملتی ہے۔ ۴- بڑھاپے کی وجہ سے ہماری جسمانی کمزوری ہماری دماغی طاقت کو متاثر نہیں کرتی۔ ۵- روح ان خاص منصوبوں کے بارے میں سوچ سکتی ہے جن کا ہماری حسی معلومات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر حواس یہ نہیں سمجھ سکتے کہ دو متضاد چیزیں اکٹھی کیوں نہیں رہ سکتیں۔ ۶- ہمارے اندر ایک خاص طاقت موجود ہے جو جسمانی اعضا پر اپنا تسلط قائم رکھتی ہے، حسی غلطیوں کی اصلاح کرتی ہے اور تمام معلومات کو یکجا کردیتی ہے۔ وحدت پیدا کرنے والا یہ اُصول جو حواس کے ذریعے حاصل ہونے والے مواد کے متعلق غور و فکر کرتا ہے وہ ہر ایک حس کے ثبوت کا جائزہ لینے کے بعد متضاد بیانات کی نوعیت کافیصلہ کرتا ہے۔ اس اُصول کو بذاتِ خود عالمِ مادہ کی سطح سے بلند ہونا چاہیے۔ روح کی بحث کے آخر میں علامہ اقبال ابن مسکویہ کے قول کی روشنی میں کہتے ہیں: ابن مسکویہ کے قول کے مطابق یہ تمام مضبوط دلائل اس مسئلے کی حقیقت کو قطعی طور پر ثابت کردیتے ہیںکہ روح اپنی اصل کے لحاظ سے غیرمادی ہے۔ روح کی غیرمادیت کا مطلب اس کی بقا ہے کیوں کہ فنا تو مادی چیزوں کا خاصہ ہے۔ II۔ بو علی سینا (متوفی ۱۰۳۷ئ) حکیم بو علی سینا بلاشبہ عالم اسلام کی ایک بلند پایہ علمی شخصیت تھا۔ اس نے نہ صرف دنیائے فلسفہ میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے بلکہ طب کی دنیا میں بھی اسے عالم گیر شہرت و عظمت ملی ہے۔ طب سے متعلق اس کی تصانیف عرصۂ دراز تک مغربی دنیا کی طبی تحقیق کا موضوع رہی ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی کئی کتابوں میں اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ ایک جگہ مغلیہ دور کے ایک مشہور فارسی شاعر عرفی کی بلندیِ خیال کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں: محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے فدا ہو جس پہ حیرت خانۂ سینا و فارابی [کلیات اقبال، ص ۲۳۸] وہ اپنی کتاب میں مولانا روم کے مسلک عشق کو بو علی سینا کی فلسفہ طرازی پر ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں: بو علی اندر غبارِ ناقہ گُم دستِ رومی پردۂ محمل گرفت [کلیات اقبال، ص ۲۷۶] اپنی اس فلسفیانہ تصنیف میں انھوں نے بو علی سینا کے فلسفیانہ نظام کے چند اہم گوشوں سے نقاب کشائی کی ہے۔ وہ سب سے پہلے بو علی سینا کی جودت طبع اور علمی کمال کا اعتراف کرتے ہیں اور بعدازاں اس کے نظریات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اس بارے میں علامہ اقبال کے تصورات کا خلاصہ یہ ہے کہ قدیم ایرانی فلسفیوں میں سے صرف بو علی سینا نے اپنے ہی نظام افکار کو تشکیل دینے کی کوشش کی تھی۔ اس کی کتاب حکمۃ الاشراق ابھی تک موجود ہے۔ ہم تک اس کی ایک نامکمل کتاب کا حصہ بھی پہنچا ہے جس میں اس عظیم المرتبت فلسفی نے کائنات میں قوت عشق کی آفاقی تاثیر کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر کیے ہیں۔ عشق و محبت کے موضوع پر اس کی یہ ناتمام کتاب برٹش میوزیم لائبریری میں اس کے مجموعہ تصانیف میں محفوظ ہے جسے این۔ اے۔ایف مہران نے ترتیب دیا تھا۔ ذیل میں بو علی سینا کے تصور حسن و عشق کی تلخیص کو پیش کیا جاتا ہے تاکہ ہم کسی حد تک اس موضوع کی اہمیت سے آگاہ ہوسکیں۔ وہ خدا تعالیٰ کو حقیقتِ مطلقہ اور حسنِ لازوال خیال کرتے ہوئے اسے ہماری تمام جدوجہد اور نصب العین کا منشائے کمال بنانے کا خواہش مند ہے۔ اس کی رائے میں انسان جس قدر اس حسنِ لافانی کو قریب ہوتا جائے گا وہ اسی قدر مرتبہ کمال تک پہنچتا جائے گا۔ انسان اور خدا کے حسن لازوال کے قریب تر لانے والی خواہش کا نام حرکتِ عشق ہے۔ اس لحاظ سے وہ عشق کی ہمہ گیر قوت و سرایت کا زبردست قائل ہے۔ علامہ اقبال بو علی سینا کے ان تصورات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ بو علی سینا کی رائے میں حسنِ لازوال کی تحسین کا نام ’’عشق و محبت‘‘ ہے۔ عشق کی اس تعریف کے نقطہ نگاہ سے وہ ہستی کے تین مدارج کی یوں وضاحت کرتا ہے: ۱-وہ اشیا جو تکمیل کے نقطہ عروج پر ہیں۔ ۲-وہ چیزیں جو تکمیل کے اسفل نقطہ پر ہیں۔ ۳-وہ اشیا جو کمال کے دونوں ڈانڈوں کے درمیان ہیں۔ یہ تیسرا درجہ حقیقی زندگی نہیں رکھتا کیوں کہ کچھ چیزیں پہلے ہی پایہ تکمیل تک پہنچ چکی ہیں اور کچھ دوسری چیزیں ابھی تک کمال کی طرف رواں دواں ہیں۔ علامہ اقبال اس کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: نصب العین کے لیے یہ جدوجہد حسن کی جانب عشق کی حرکت ہے۔ بو علی سینا کی رائے میں حسن اور کمال ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ صور (اشکال) کے دیدنی ارتقا کے نیچے عشق کی قوت کارفرما ہے جو ہر طرح کی جدوجہد، حرکت اور ترقی کو حقیقت سے ہمکنار کرتی ہے۔ عدم سے نفرت چیزوں کی سرشت میں داخل ہے اور وہ ارادہ اور بذات خود بے جان مادہ عشق کی اندرونی طاقت کے باعث مختلف شکلیں اختیار کرکے حسن کی اعلیٰ سے اعلیٰ میزان تک جاپہنچتا ہے۔ بو علی سینا قوت عشق کی آفاقیت کا قائل تھا اس لیے وہ ہر ذرہ کائنات کی تخلیق کو عشق الٰہی کی کرشمہ سازی اور عشق کی ہمہ گیر تاثیر کا نتیجہ خیال کرتا تھا۔ وہ قوت عشق کو اس مادی دنیا کی اساس اور حصول کمالات کابہترین اور موثر زینہ سمجھ کر اس کی تعریف کرنے میں بے باک تھا۔ اس کے نقطۂ نظر سے طبعی دنیا میں عشق کی ہمہ گیر تاثیر کو مختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے: ۱- بے جان اشیا شکل، مادہ اور خاصیت کامجموعہ ہوتی ہیں۔ عشق کی پراسرار طاقت کی کارفرمائی کی بدولت خاصیت اپنے مواد اور جوہر کے ساتھ چمٹ جاتی ہے اور صورت غیر معین مادے سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ مادہ عشق کی زبردست طاقت سے حرکت پاکر ایک شکل سے دوسری شکل میں چلا جاتا ہے۔ ۲- قوت عشق اپنی ذات میں مرکزیت پیدا کرنے کا رجحان رکھتی ہے۔ عالم نباتات میں یہ مرکزیت یا وحدت کے اعلیٰ درجے کو پالیتی ہے۔ اگرچہ روح اس وحدت عمل سے محروم ہوتی ہے تاہم وہ بعدازاں اسے حاصل کرلیتی ہے۔ نباتاتی روح کے طریقہ ہائے کار یہ ہوتے ہیں: (الف)انجذاب و انہضام۔ (ب)بالیدگی (نشوونما) (ج)تولید نو۔ یہ طریقے دراصل عشق و محبت کے بہت سے مظاہر ہیں۔ انجذاب (جذب پذیری) سے کشش اور ظاہری چیزوں کی ہیئت کو باطن میں تبدیل کرنے کا اظہار ہوتا ہے۔ بالیدگی سے مراد مختلف اجزا کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی حاصل کرنے کی محبت ہے۔ تولید نو کا مطلب جنس (نوع) کا دوام ہے جو صرف عشق و محبت کے ایک اور مرحلے کا نام ہے۔ ۳- عالمِ حیوانات میں قوتِ عشق کی مختلف کارفرمائیاں مزید وحدت کی حامل ہوتی ہیں۔ یہ چیز مختلف سمتوں میں کام کرنے والی نباتاتی جبلت کا تحفظ کرتی ہے لیکن اس میں مزاج کی ترقی بھی ہے جو مزید متحدہ سرگرمی کی طرف ایک قدم ہے۔ انسان میں یہ وحدت نما رجحان شعور ذات کامظہر بن جاتا ہے۔ ’’قدرتی یا اساسی عشق‘‘ کی یہی طاقت انسان سے بلند تر مخلوقات میں بھی کارفرما ہے۔ بو علی سینا کی رائے میں جو چیز حسن لازوال کے زیادہ نزدیک ہوگی اس کی قدر و منزلت بھی زیادہ ہوگی اس کے برعکس اس سرچشمہ حسن و کمال کی دوری چیزوں کی کم قدری یا بے قدری کا سبب بن جاتی ہے۔ علامہ اقبال بو علی سینا کے اس نقطہ نظر کی وکالت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تمام اشیا محبوب اولین یعنی حسن لازوال کی جانب رواں دواں ہیں۔ کسی چیز کی کی قدر و قیمت کا اندازہ اس حقیقتِ مطلقہ سے نزدیکی یا دوری کے لحاظ سے لگایا جاتا ہے۔ علامہ اقبال بو علی سینا کے تصور عشق پر روشنی ڈالنے کے بعد اس کے نظریہ روح کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ جب روح کی بحث چل نکلے گی تو خدااور جسم کے ساتھ اس کے گہرے تعلق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مفکر اسلام اور شاعر مشرق کی زبانی بو علی سینا کے تصور روح کا خلاصہ یہ ہے کہ طبیب ہونے کی حیثیت سے بو علی سینا روح کی نوعیت میں خاص طور پر دل چسپی رکھتا ہے۔ مزید برآں اس کے زمانے میں تناسخ ارواح (آواگون) کانظریہ زیادہ سے زیادہ مقبول ہوتا جارہا تھا۔ اس لیے اس تصور کا ابطال کرنے کے لیے وہ روح کی نوعیت کو زیر بحث لاتا ہے۔ اس کا قول ہے کہ روح کی تعریف کرنامشکل ہے کیوں کہ یہ ہستی کے مختلف مدارج میں مختلف قویٰ اور رجحانات کااظہار کرتی ہے۔ روح کی مختلف طاقتوں کے بارے میں اس کے خیال کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے: I- غیر شعوری سرگرمی کی حیثیت سے اظہار (الف) مختلف سمتوں میں کام کرنا (نباتاتی روح) ۱- انجذاب و انہضام ۲- بالیدگی ۳- تولیدِ نو (ب) ایک سمت میں کام کرنا اور اتحاد عمل حاصل کرنا… مزاج کی نشو و نما۔ II- باشعور سرگرمی کی حیثیت سے ظہور (الف) ایک سے زیادہ اشیا کی طرف متوجہ ہونا: حیوانی روح انسان کم تر حیوانات (۱) محسوس کرنے والی طاقتیں (پانچ ظاہری حواس اور پانچ باطنی حواس) (۱) محسوس کرنے والی طاقتیں (۲) پانچ باطنی حواس (تصورات کی برقراری۔ تصور۔ تخیل۔ حافظہ۔ پردۂ حس) (۲) محرک طاقتیں (خوشی کی خواہش اور تکلیف سے گریز) ۲- پانچ باطنی حواس پردۂ حس (تصورات کی برقراری) تصور۔ تخیل۔ حافظہ۔ یہ تمام اس روح کے پانچ باطنی حواس کے عناصر ترکیبی ہیں جو انسان میں ترقی یافتہ عقل کے طور پر ظاہر ہوتی ہے اور انسان عقل سے ترقی پاکر ملکوتی عقل اور پیغمبرانہ عقل کا حامل بن جاتا ہے۔ (ب) ایک ہی شے کی طرف متوجہ ہونا (یکساں حرکت جاری رکھنے والے کرّوں کی روح) بو علی سینا جسم اور روح کو ایک دوسرے سے جدا تصور کرتے تھے ان کی رائے میں تناسخ ارواح یا آواگون کا نظریہ درست نہیں کیوں کہ روح ہمیشہ جسم کی محتاج نہیں ہوتی۔ علامہ اقبال نظریہ روح کی اس بحث کے دوران یہ کہتے ہیں: نفس (روح) کے متعلق بو علی سینا نے جو نامکمل کتاب تحریر کی تھی وہ اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ روح کے لیے مادی سواری لازمی نہیں۔ جسم یا جسم کی کسی طاقت کے وسیلے سے روح خیالی پیکر حاصل نہیں کرتی کیوں کہ دوسری چیزوں کا ادراک کرنے کی خاطر اگر روح کو کسی جسمانی ذریعے کی ضرورت ہو تو اسے اپنے ساتھ پیوستہ جسم کو متصور کرنے کے لیے کسی اور مختلف جسم کی ضرورت حاجت ہونی چاہیے۔ مزید برآں روح اپنی ذات کے ذریعے اپنے شعور کی حامل ہوتی ہے۔ یہ حقیقت کہ روح بذاتِ خود فوراً شعور ذات حاصل کرلیتی ہے ایک واضح ثبوت ہے کہ اپنے جوہر کے لحاظ سے وہ کسی جسمانی رفاقت سے بالکل آزاد ہے۔ تناسخ ارواح کے اُصول کا مطلب انفرادی وجود قدیم بھی ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ روح جسم سے پہلے موجود تھی تو اس صورت میں یہ یا تو واحد تھی یا کثیر۔ کثرت اجسام مادی اشکال کی کثرت کی بنا پر ہے اس لیے یہ ارواح کی کثرت کی مظہر نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس اگر روح واحد تھی توپھر ایک شخص کی جہالت اور علم کامطلب دوسرے شخص کی بھی جہالت اور علم ہے کیوں کہ ان دونوں میں ایک ہی روح فرض کی گئی تھی۔ اس لیے ان چیزوں کو روح سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ جب روح کی یہ حقیقت ہے تو یہ جسم کی پابندیوں سے آزاد وجو درکھتی ہے۔ بو علی سینا نے جسم اور روح کے بارے میں جو کچھ کہا ہے علامہ اقبال اس کی تلخیص ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: بو علی سینا کہتا ہے کہ سچ تو یہ ہے کہ جسم اور روح ایک دوسرے سے متصل تو ہیں مگر وہ اپنے اپنے جوہر میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جسم کے عناصر ترکیبی کے انتشار سے روح کی فنا لازم نہیں آتی۔ انتشار اور زوال مادی اجزا کے مرکب کی خصوصیت ہے۔ اس کا سادہ، ناقابل تقسیم او رمثالی جواہر سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بات کو بیان کرچکنے کے بعد بو علی سینا نے بدن کے وجود قدیم کا منکر ہو کر موت کے بعد بے بدن شعوری زندگی کے امکان کو ثابت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ بو علی سینا اس تصور روح کے مطابق موجودہ بدن سے پہلے منفرد روح اور موت کے بعد اس کی جسم کے بغیر بقا کا زبردست قائل تھا۔ اس باب میں علامہ اقبال نے بوعلی سینا کی جدت خیال اور حریتِ فکر کی کافی تعریف کی ہے۔ ان کی رائے میں قدیم ایرانی نوافلاطونی مفکرین اور فلاسفہ میں صرف بو علی سینا نے اپنے فکر کی روشنی میں اپنی راہ حیات کو فروزاں کرنا سیکھا تھا۔ و ہ فرماتے ہیں: ایران کے نو افلاطونی متقدمین کے مطالعہ سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی ہے کہ ان میں سے صرف بو علی سینا نے اپنے لیے خود غور و فکر کرنا سیکھا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بو علی سینا کے نظریات نے متاخرین پر بہت اثر ڈالا تھا۔ اس کی عظیم المرتبت شخصیت اتنی سحر آفرین بن گئی تھی کہ اس کی موت کے بعد اس کے افکار میں حک و اضافہ کوناقابلِ معافی جرم خیال کیا جاتا تھا۔ ایران میں نو افلاطونیت کی ترقی میں ظلمت و نور کی ثنویت کا قدیم ایرانی تصور زبردست عامل ثابت نہیں ہوا۔ اگرچہ نوافلاطونیت کو وہاں کچھ عرصہ کے لیے آزادانہ وجود مل گیا تھا لیکن آخرکار یہ تحریک مروجہ ایرانی نظام فکر میں مدغم ہوگئی۔ جس حد تک یہ نوافلاطونی افکار و نظریات زرتشت کے قدیم مکتب خیال کے وحدت الوجودی رجحان کی توسیع و توانائی کے لیے موثر ثابت ہوئے وہ اس حد تک ایرانی فلسفے کے ساتھ مربوط رہے۔ مسلمان علما کی مذہبی بحثوں نے کچھ عرصہ کے لیے ان نوافلاطونی افکار کی ترقی کوروکا مگربعدازاں انھوں نے پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ سراٹھا کر ایران کے قدیم فکری کارناموں کوا پنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔ بو علی سینا نے اپنے بعد میں آنے والے مفکرین کو خاصا متاثر کیا تھا۔ اس کے چند پیروکاروں مثلاً بہمن یار، ابو المامون اصفہانی، معصومی، ابو العباس اور ابن طاہر نے اپنے اس پیرو مرشد کے فلسفیانہ خیالات کو آگے بڑھانے میں نمایاں حصہ لیا تھا۔ اپنے خلوصِ فکراور سعی کے باوجود وہ بو علی سینا کی فکری عظمت کے مالک نہ ہوسکے۔ بہرحال بو علی سینا اور اس کے متبعین کی فکری کاوش نوافلاطونیت (Neoplatonism) پر پوری طرح غالب نہ آئی۔