ــــــــ کی گود میں بلی دیکھ کر
From IQBAL
ــــــــ کی گود میں بلی دیکھ کر
تجھ کو دزدیدہ نگاہی یہ سکھا دی کس نے
رمز آغاز محبت کی بتا دی کس نے
ہر ادا سے تیری پیدا ہے محبت کیسی
نیلی آنکھوں سے ٹپکتی ہے ذکاوت کیسی
دیکھتی ہے کبھی ان کو، کبھی شرماتی ہے
کبھی اٹھتی ہے، کبھی لیٹ کے سو جاتی ہے
آنکھ تیری صفت آئنہ حیران ہے کیا
نور آگاہی سے روشن تری پہچان ہے کیا
مارتی ہے انھیں پونہچوں سے، عجب ناز ہے یہ
چھیڑ ہے، غصہ ہے یا پیار کا انداز ہے یہ؟
شوخ تو ہوگی تو گودی سے اتاریں گے تجھے
گر گیا پھول جو سینے کا تو ماریں گے تجھے
کیا تجسس ہے تجھے، کس کی تمنائی ہے
آہ! کیا تو بھی اسی چیز کی سودائی ہے
خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں
صورت دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں
شیشہ دہر میں مانند مے ناب ہے عشق
روح خورشید ہے، خون رگ مہتاب ہے عشق
دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی
نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی
کہیں سامان مسرت، کہیں ساز غم ہے
کہیں گوہر ہے، کہیں اشک، کہیں شبنم ہے