Actions

Difference between revisions of "Panchwaan musheer"

From IQBAL

(Created page with " پانچواں مُشیر (اِبلیس کو مخاطَب کرکے) اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم اُستوار! تُو نے جب چاہا، کِیا...")
 
Line 1: Line 1:
  
پانچواں مُشیر
+
== پانچواں مُشیر ==
 +
 
 +
'''(اِبلیس کو مخاطَب کرکے)'''
  
(اِبلیس کو مخاطَب کرکے)
 
  
 
اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم اُستوار!
 
اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم اُستوار!
 +
 
تُو نے جب چاہا، کِیا ہر پردگی کو آشکار
 
تُو نے جب چاہا، کِیا ہر پردگی کو آشکار
 +
 
آبِ و گِل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز
 
آبِ و گِل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز
 +
 
ابلہِ جنّت تری تعلیم سے دانائے کار
 
ابلہِ جنّت تری تعلیم سے دانائے کار
 +
 
تجھ سے بڑھ کر فطرتِ آدم کا وہ محرم نہیں
 
تجھ سے بڑھ کر فطرتِ آدم کا وہ محرم نہیں
 +
 
سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار
 
سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار
 +
 
کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف
 
کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف
 +
 
تیری غیرت سے ابَد تک سرنِگون و شرمسار
 
تیری غیرت سے ابَد تک سرنِگون و شرمسار
 +
 
گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحِر تمام
 
گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحِر تمام
 +
 
اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار
 
اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار
 +
 
وہ یہودی فِتنہ گر، وہ روحِ مزدک کا بُروز
 
وہ یہودی فِتنہ گر، وہ روحِ مزدک کا بُروز
 +
 
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جُنوں سے تار تار
 
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جُنوں سے تار تار
 +
 
زاغِ دشتی ہو رہا ہے ہمسرِ شاہین و چرغ
 
زاغِ دشتی ہو رہا ہے ہمسرِ شاہین و چرغ
 +
 
کتنی سُرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روزگار
 
کتنی سُرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روزگار
 +
 
چھا گئی آشُفتہ ہو کر وسعتِ افلاک پر
 
چھا گئی آشُفتہ ہو کر وسعتِ افلاک پر
 +
 
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مُشتِ غبار
 
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مُشتِ غبار
 +
 
فِتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
 
فِتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
 +
 
کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جُوئبار
 
کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جُوئبار
 +
 
میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
 
میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
 +
 
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
 
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
 +
</div>

Revision as of 09:56, 25 May 2018

پانچواں مُشیر

(اِبلیس کو مخاطَب کرکے)


اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم اُستوار!

تُو نے جب چاہا، کِیا ہر پردگی کو آشکار

آبِ و گِل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز

ابلہِ جنّت تری تعلیم سے دانائے کار

تجھ سے بڑھ کر فطرتِ آدم کا وہ محرم نہیں

سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار

کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف

تیری غیرت سے ابَد تک سرنِگون و شرمسار

گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحِر تمام

اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار

وہ یہودی فِتنہ گر، وہ روحِ مزدک کا بُروز

ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جُنوں سے تار تار

زاغِ دشتی ہو رہا ہے ہمسرِ شاہین و چرغ

کتنی سُرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روزگار

چھا گئی آشُفتہ ہو کر وسعتِ افلاک پر

جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مُشتِ غبار

فِتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج

کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جُوئبار

میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے

جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار