Actions

Khatoot ke mabahas

From IQBAL

Revision as of 23:10, 11 June 2018 by Ghanwa (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> ''خطوط کے مباحث'' اقبال کے خطوط جناح کے نام جہاں مفکر پاکستان علامہ اقبال (۱۸۷۷ء ۔ ۱۹۳۸ئ)...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

خطوط کے مباحث


اقبال کے خطوط جناح کے نام جہاں مفکر پاکستان علامہ اقبال (۱۸۷۷ء ۔ ۱۹۳۸ئ) اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح (۱۸۷۶ء ۔ ۱۹۴۸ئ) کے درمیان گہرے تعلقات کا بین ثبوت ہیں وہاں برصغیر جنوب مشرقی ایشیا کے ایک خاص عہد کے سیاسی حالات اور مسائل پر بھی گہری روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ پر آشوب زمانہ آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نو کا ابتدائی زمانہ تھا۔ مسلم اقلیتی علاقوں میں مسلمان مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے ہو رہے تھے مگر مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کی ہر صوبے میں اپنی علیحدہ علیحدہ تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں تھیں اور مسلم لیگ کا وہاں کوئی خاص اثر و رسوخ نہ تھا۔ کانگریس ایک نئے حربے یعنی مسلم رابطہ عوام تحریک کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے دام فریب میں لانے کے لیے کوشا تھی۔ ان حالات اور واقعات پر علامہ اقبال کی بڑی گہری نگاہ تھی اہنوںنے اپنے خطوط میں مسلم ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات کا واضح اور غیر مبہم اظہار کیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح ملک کے دستوری مسائل اور حالات کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد پورے طور پر ان کے خیالات سے ہم آہنگ ہوئے اور پھر یہی خیالات مسلم ہندوستان کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے۔ جس کا مظہر ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد پاکستان تھی۔ دسمبر ۱۹۳۰ء میں علامہ اقبال نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد کی صدارت کی۔ آپ نے اپنے خطبہ صدارت میں واضح طور پر برصغیر جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ ریاست کا تصور پیش کیا۔ اسی بنا پر آپ کو مفکر پاکستان کہا جاتاہے۔ اس کے بعد آپ نے اس ریاست کے حصول کے لیے قائد کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ محمد علی جناح ہیں جو اس دور میں مسلمانوں کی صحیح طریق پر رہنمائی کر سکتے ہیں ۔ ۱۹۳۶ء میں ایک روز علامہ اقبال کے ہاں قائد اعظم محمد علی جناح کی دیانت امانت اور قابلیت کا ذکر ہو رہا تھا آپ نے فرمایا کہ: ’’مسٹر جناح کو خدائے تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جوآج ہندوستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آتی۔ حاضرین میں سے کسی نے پوچھا وہ خوبی کیا ہے آپ نے انگریزی میںکہا: He is Indorruptable and Unpurchaseable (نہ تو وہ بدعنوان ہیں اور نہ انہیں خریدا جا سکتا ہے) … بات یہ ہے کہ انگریز نے ہندوستان میں پارلیمنڑی طرز حکومت کے نام سے اپنی شہنشاہیت کو مضبوط کرنے کا ایک جال بچھایا ہے۔ جناح اس جال کی ایک ایک گروہ سے واقف ہیں وہ بیچارہ صرف یہ کہتا ہے کہ مسلماں اس نظام حکومت کے ماتحت کہیں خسارہ نہ اٹھائیں۔ اس لیے وہ اپنی سیاسی بصیرت کی روشنی میں آپ کو ہوشیار ہو جانے کی تلقین کرتا ہے‘‘ ۱؎ علامہ اقبال سمجھتے تھے کہ اس وقت برصغیر جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کی صحیح طورپر رہنمائی قائد اعظم محمد علی جناح ہی کر سکتے تھے اسی لیے وہ اپنی گفتگوئوں میں قائد اعظم محمد علی جناح کی دیانت اور قائدانہ صلاحیتوںکی تعریف کیا کرتے تھے۔ ۲۳ ستمبر ۱۹۳۷ء کو مولانا راغب احسن (۱۹۰۶ء ۱۹۷۵ئ) کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں۔ ’’اس وقت مسلمانوں کے لیے یہی راہ عمل کھلی ہے کہ وہ مسٹر محمد علی جناح کی قیادت میں اپنی تنظیم کریں۔ مجھ کو ان کی دیانت پر کلی اعتماد ہے‘‘ ۲؎۔ علامہ اقبال نے قائد اعظم محمد علی جناح کو مسلمانوں کے لیے جداگانہ مملکت کے حصول کی خاطر تیار بھی کیا۔ جس کی شہادت قائد اعظم محمد علی جناح کے نام آپ کے خطوط دیتے ہیں۔ ۲۱جون ۱۹۳۷ء کو آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح کو تحریر کیا کہ: ۱؎ غلام دست گیر رشید آثار اقبال حیدر آباد دکن ص ۲؎ محمد فرید الحق۔ اقبال۔ جہاں دیگر کراچی ۱۹۸۳ء ’’آپ بہت مصروف آدمی ہیں مگر مجھے توقع ہے کہ میرے بار بار خط لکھنے کو آ پ بار خاطر نہ خیا ل کریں۔ اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے قوم محفوظ رہنمائی کی توقع کا حق رکھتی ہے‘‘۔ اقبال کے خطوط جناح کے نام برصغیر جنوب مشرقی ایشیا کی اہم سیاسی دستاویزات کا حصہ ہیں۔ ان خطوط کے مباحث میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم اور خاص طور پر پنجاب میں اس کا دیگر مسلم جماعتوں سے اتحاد و تعاون اسے عوامی جماعت بنانے کے لیے اس کے منشور اور پروگرام میں تبدیلی کی ضرورت آل انڈیا نیشنل کنونشن اور مسلم رابطہ عوام تحریک کے مناسب جواب کے لیے مسلم کنونشن کے انعقاد کی تجویز قانون ہند ۱۹۳۵ء اورکیمونل ایوارڈ کے بارے میں مسلم پالیسی ہندو مسلم فسادات جناح سکندر معاہدہ‘ مسئلہ فلسطین اور برصغیر میں امن و امان کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے شمال مغربی ہندوستان میں ایک مسلم ریاست کے قیام کی ضرورت اور اہمیت وغیرہ شامل ہیں۔ علامہ اقبال اس بات کے خواہش مند تھے کہ مسلم لیگ مسلم عوام میں مقبول اورہر دل عزیز ہو۔ یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ مسلم لیگ کے منشور اور نصب العین میں عام مسلمانوں کی حالت بہتر بنانے اورا ن کی عمومی فلاح و بہبود کے لیے کوئی واضح پروگرام ہو۔ علامہ اقبال نے اپنے خطوط میں قائد اعظم محمد علی جناح کی توجہ اس طر ف مبذول کرانے کی کوشش کریں۔ آپ نے ۱۰ مئی ۱۹۳۷ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کے نام اپنے خط میں تحریر کیا کہ: ’’میرا خیال ہے کہ مسلم لیگ کے آئین میں مناسب تبدیلیاں کرنا ضروری ہیں۔ تاکہ مسلم لیگ کو عوام الناس کے قریب تر لایا جائے جنہوں نے اب تک مسلمانوں کے بالائی متوسط طبقے کی سیاسی سرگرمیوں میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ متوسط مسلمان طبقے کو شکایت ہے کہ ہمارے لیڈروں کو صرف اپنے عہدوں سے دلچسپی ہے اور یہ کہ حکومت کے مختلف محکموں میں خالی آسامیاں یونینسٹوں کے رشتہ داروں یا دوستوں کے لیے مخصوص کر دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا متوسط طبقہ سیاسی معاملات میں کم دلچسپی لیتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ان کی شکایت بجا ہے مجھے امید ہے کہ آپ لیگ کے دستور میں چند مناسب ترمیمات کے بارے میں ضرور غور کریں گے۔ جس سے عوام الناس میں لیگ اور اس کی سرگرمیوں کے ضمن میں بہتر توقعات پیدا ہوں گی‘‘۔ علامہ اقبال مسلم لیگ کے آئین اور پروگرام میں تبدیلی کی ضرورت کو بہت ضروری خیال کرتے تھے کہ اس لیے آپ نے دوبارہ ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کے نام اپنے خط میں تحریر کیا۔ ’’مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ مسلم لیگ کے دستور اور پروگرام میں جن تبدیلیوں کے متعلق نے تحریر کیا تھا کہ وہ آپ کے پیش نظر رہیں گی۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ مسلمانان ہند کی نازک صورتحال کا آپ کو پورا پورا احساس ہے۔ مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی جنہوںنے اب تک بعض معقول وجوہ کی بنا پر اس (مسلم لیگ) میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی ضامن نہ ہو۔ ہمارے کے لیے باعث کشش نہیں ہو سکتی۔ نئے دستور کے تحت الاعلیٰ ملازمتیں تو بالائی طبقوں کے بچوں کے لیے مختص ہیں اور ادنیٰ ملازمتیں وزراء کے اعزاء اور احباب کی نذر ہو جاتی ہیں دیگر امور میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی طرف کبھی غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہو تا جا رہا ہے … لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے ۔مسلم لیگ کا سارا مستقل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے۔ اگر مسلم لیگ نے (اس ضمن میں ) کوئی وعدہ نہ کیا تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے‘‘۔ ۱۹۳۶ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نو کے کام کا آغاز کیا اور پورے ملک کا دورہ کیا۔ مسلمانوں کی علاقائی اور چھوٹی چھوٹی تنظیموں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کرنے کی دعوت دی ۔ جس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور مسلمانوںکی انجمنیں اور جماعتیں مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہو گئیں۔ ۲۹ اپریل ۱۹۳۶ء کو قائد اعظم محمد علی جناح پنجاب کے دورہ پر لاہور تشریف لائے۔ سب سے پہلے آپ نے سر فضل حسین (۱۸۷۷ئ۔۱۹۳۶ئ) سے ملاقات کی اور ان سیپنجاب میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کی استدعا کی مگر انہوںنے صاف انکار کر دیا۔ اس کے بعد آپ علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے مسلم لیگ کی تنظیم نو اور صوبائی پارلیمانی بورڈ کے قیام کی درخواست کی۔ آپ نے بیماری کے باوجود امداد و اعانت کا وعدہ کیا اور سختی کے سات یہ بھی فرمایا کہ: ’’اگر آپ اودھ کے تعلقہ داروں اور بمبئی کے کروڑ پتی سیٹھوں کی قسم کی لوگ پنجاب میں تلاش کریں گے تو یہ جنس میرے پاس نہیں۔ میں صرف عوام کی مدد کا وعدہ کر سکتا ہوں‘‘۔ اس ملاقات کے چشم دید گواہ کی روایت ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح جیسے غیر جذباتی انسان علامہ اقبال کی اس بات سے اتنے متاثر ہوئے کہ وہ اپنی کرسی سے دو انچ اٹھے اور بڑے جوش سے کہا: ’’مجھے صرف عوا م کی مدد درکار ہے‘‘۔ ۳؎ قائد اعظم محمد علی جناح کی پنجاب سے واپسی پر علامہ اقبال نے پنجاب مسلم لیگ کی تنظیم نو کے کام کا آغاز کیا ۸ مئی ۱۹۳۶ء کو پنجا ب کے مسلمانوں کے نام مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح کی حمایت میں علامہ اقبلا نے دوسرے مسلم رہنمائوں کے اشتراک سے ایک بیان اخبارات کو جاری کیا ۔ جسے ایک پمفلٹ کی صورت میں ’’مسلمانان پنجاب کے نام اہم اپیل‘‘ کے عنوان سے چھپوا کر تقسیم کیا گیا ۔ اس میں کہاگیاکہ: ۳؎ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی اقبال کے آخری دو سال کراچی ۱۹۶۱ء ص ۷۔۳۰۶ ’’ بطل جلیل مسٹر محمد عل جناح ان قابل فخر مسلم رہنمائوں میں سے ہیں جن کی سیاسی دانش ہمیشہ مسلمانوں کے لیے صبر آزما وقتوں میں مشعل راہ کا کام دیتی رہی ہے۔ جس خلوص اور عزیمت سے انہوںنے مسلمانان ہند کی تمام اہم اور نازک موقعوں پر خدمت کی ہے اس کے لیے مسلمانوں کی آنے والی نسلوںکے سر عقیدت و احترام سے جھکے رہیں گے۔ ان کی تازہ ترین خدمت شہید گنج کے سانحہ المناک سے متعلق ہے۔ جس وقت کہ تمام صوبہ شہید گنج کے واقعہ خونچکاں کی وجہ سے خوف و ہراس سے سراسیمہ تھا۔ اور مسلمانوں کے جلیل القدر رہنما اور سرفروش رضاکار قید میں ٹھونس دیے گئے تھے اور تقریباً تمام اسلامی پریس ضمانتوں اور ضبطیوں کے بار گراں سے عضو معطل بنا ہوا تھا اور پنجاب کے نام نہاد رہنما منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر اپنے فلک بوس محلوںمیں محو عشرت تھے۔ اس وقت مسٹر جناح ہی تھے جو بمبئی سے ہزاروں میل کا سفر طے کرکے پنجاب کے مسلمانوں کے زخمی دلوں پر مرہم لگانے کے لیے فرشہ رحمت بن کر نمودار ہوئے ان کی تشریف آوری سے صوبے کی فضا یکسر بدل گئی۔ رہنمائوں اور رضاکاروں کو قید و بند کی مصیبتوں سے رہا کر دیا گیا اور ضمانتوں اور ضبطیوں کی تیز تلوار جو اسلامی پریس کے سر پرلٹک رہی تھی ہٹا لی گئی۔ ان پاکیزہ خدمات کو یاد کر کے آج بھی احسان شناس پنجابی مسلمان کا دل تشکر و امتنان کے جذبات سے مسحور ہو جاتا ہے۔ ان کی سب سے آخری خدمت جو ان کی سیاسی بصیر ت پر دال ہے اس سکیم کی صورت میں جلوہ گر ہوئی جس کے تحت تمام صوبوں میں انتخابات مسلم لیگ کے جھنڈے تلے لڑے جائیں گے اور اس طرح مسلمان ان کھرے اور قابل اعتماد ارکان کو اسمبلی میں بھیجنے کے قابل ہو سکیں گے جو قوم و وطن کے مفاد کے لیے ہر ممکن قربانی اور ایثار کرنے کو تیار ہوں گے… وہ قوم اور ملک کے خادم بن کر جائیں گے اور قوم و وطن کے مفاد عالیہ کے لیے انہیں بڑی سے بڑی قوت سے ٹکرانا ہوا تو وہ کبھی دریغ نہیں کریںگے‘‘۔ ۴؎ ۴؎ محمد رفیق افضل (مرتبہ) گفتار اقبار۔ لاہور ۱۹۶۹ء ص ۵۔۲۰۳ ۱۲ مئی ۱۹۳۶ ء کو لاہور کے مسلم رہنمائوں کا ایک اجلاس علامہ اقبال کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کی جائے اور پنجاب صوبائی مسلم لیگ کے مندرجہ ذیل عہدے دار مقرر کیے گئے۔ صدر… علامہ اقبال نائب صدر… ملک برکت علی۔ خلیفہ شجاع الدین سیکرٹری… غلام رسول خان جائنٹ سیکرٹری… میاںعبدالمجید اور عاشق حسین بٹالوی علاوہ ازیں ایک قرارداد کے ذریعہ قائد اعظم محمد علی جناح کی اس سکیم کا خیر مقدم کیا گیا جس کی رو سے آل انڈیا مسلم لیگ ایک مرکزی پارلیمانی بورڈ قائم کر کے تمام صوبوں میں مسلمانوں کے انتخابات کی نگرانی کرے گی اور مسلمانوں سے درخواست کی کہ وہ اس سکیم کو کامیاب بنانے کی پوری کوشش کریں۔ ۵؎۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کا کام بڑی تیزی سے ہونے لگا اور اس میں خاطرخواہ کامیابی ہوئی۔ پنجاب میں بھی علامہ اقبال کے زیر اثر مسلم لیگ کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ۳ ۲ مئی ۱۹۳۶ء کو علامہ اقبال نے مسلم لیگ کی کامیابی کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھا کہ: ’’مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کا کام آگے بڑھ رہاہے ۔ مجھے پور ی توقع ہے کہ پنجاب کی جماعتیں بالخصوص احرار اور اتحاد ملت تھوڑی بہت نزاع اور کشمکش کے بعد آخر کار آپ کے ساتھ شریک ہو جائیں گی‘‘۔ ۲۸ مئی ۱۹۳۶ء کو علامہ اقبال کے دولت کدہ پر مسلم لیگ کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جس میںمرکزی پارلیمانی بورڈ کے پنجاب کے اراکین کے علاوہ خلیفہ شجاع الدین ملک برکت علی‘ سید محمد علی جعفری‘ ملک نور الٰہی مالک روزنامہ ’’احسان‘‘ پیر تاج الدین بیرسٹر ایٹ لاء ملک نور احمد‘ غلام رسول خاں بیرسٹر ایٹ لاء شیخ اکبر اعلی ایڈووکیٹ ‘ میاں عبدالمجید بیرسٹر ایٹ لاء اورعاشق حسین بٹالوی نے شرکت کی۔ ۵؎ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کتاب مذکور ص ۳۱۵ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ حصہ لے اور اس ک لیے ایک صوبائی پارلیمانی بورڈ بھی قائم کیا جائے۔ علاوہ ازیں پارلیمانی بورڈ کے قواعد و ضوابط مرتب کر کے شائع کیے جائیں۔ ۶؎ چنانچہ پنجاب صوبائی پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا گیا اور اس کے قواعد و ضوابط مرتب کر کے شائع کیے گئے۔ اس کے علاوہ مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ جن کے ذمے نشر و اشاعت اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں جا کر پارلیمانی بورڈ کے اغراض و مقاصد سے عوام کو متعارف کرانا تھا۔ شروع شروع میں اتحاد ملت اور مجلس احرار اسلام نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کیا مگر جلد ہی ان جماعتوں نے علیحدہ علیحدہ انتخابا ت میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی طرح مسلم لیگ اوریونینسٹ پارٹی کے درمیان مفاہمت کی بات چیت ہوئی مگر وہ بھی بے سود رہی۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال نے ۲۳ اگست ۱۹۳۶ء کو قائد اعظم محمد علی جناح سے دریافت کیا کہ ان کی کیا رائے ہے۔ ’’پنجاب پارلیمانی بورڈ اوریونینسٹ پارٹی کے مابین مفاہمت کی کچھ گفتگو ہو رہی ہے۔ اس قسم کی مفاہمت کے بارے میں آ پ کی کیا رائے ہے اور اس کے لیے آپ کیا شرائط تجویز کرتے ہیں؟ میں نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ آ پ نے بنگال پر جا پارٹی اور پارلیمانی بورڈ میں مصالحت کرا دی ہے۔ اس کی شرائط و ضوابط سے مجھے مطلع فرمائیے چونکہ پرجا پارٹی بھی یونینسٹ پارٹی کی طرح غیر فرقہ وارانہ ہے ا س لیے بنگال میں آپ کی مصالحت آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے‘‘۔ علامہ اقبال کا خیال تھا کہ مسلم لیگ کو مسلم اکثریتی علاقوں میں زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ وہ چاہتے تھے کہ ۱۹۳۷ء میں ہونے والا مسلم لیگ کا سالانہ اجلا س لاہور میں منعقد کیا جائے اس سے پنجاب میں سیاسی بیداری پیدا ہو گی اور مسلم لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا۔ چنانچہ ۲۱ جون ۱۹۳۷ء کے خط میں علامہ اقبال نے قائد اعظم محمد علی جناح کو تحریر کیا کہ: ۶؎ ایضاً ص ۳۱۸ ’’مسلم لیگ کا آئندہ اجلاس کسی مسلم اقلیت کے صوبہ کی بجائے پنجاب میںمنعقد کرنا بہتر ہو گا۔ لاہور میں اگست کا مہینہ تکلیف دہ ہوتا ہے میرا خیال ہے کہ آپ لاہور میں وسط اکتوبر میں جب موسم خوشگوار ہو جاتا ہے تو مسلم لیگ کے اجلاس کے انعقاد کے بارے میں غور فرمائیں۔ پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ سے دلچسپی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لاہور میںمسلم لیگ کے آئندہ اجلاس کا انعقاد پنجاب کے مسلمانوں میں ایک نئی سیاسی بیداری کا باعث ہو گا‘‘۔ یہاں اس بات کا زکر بے جا نہ ہو گا کہ اگر یہ بھی بتایا جائے کہ علامہ اقبال کا خیال تھا کہ پنجاب میں برصغیر کے مسلمانوں کی ملی تحفظ کے لیے آئندہ تمام لڑائیاں لڑی جائیں گی۔ جیسا کہ آپ نے بابائے اردو مولوی عبدالحق (۱۸۷۰ء ۔ ۱۹۶۱ئ) کے نام اپنے خط محررہ ۲۷ ستمبر ۱۹۳۶ء میں تحریر کیا۔ ’’مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لیے جو لڑائیاں آئندہ لڑنی پڑیں گی۔ ان کا میدان پنجاب ہو گا‘‘۔ ۷؎ آپ نے دوبارہ ۱۱ اگست ۱۹۳۷ ء کو قائد اعظم محمد علی جناح سے درخواست کی کہ مسلم لیگ کا آئندہ اجلاس لاہور میںمنعقد کیا جائے آپ نے اپنے خط میں لکھا کہ : ’’میں مکرر درخواست کرتا ہوں کہ مسلم لیگ کا اجلاس اکتوبر کے وسط یا آخر میں لاہور میں منعقد کیا جائے۔ پنجاب میں مسلم لیگ کے لیے جوش و خروش برابر بڑھ رہا ہے اورمجھے قوی امید ہے کہ لاہورمیں اس کا اجلاس مسلم لیگ کی تاریخ میں انقلاب آفریں باب اور عوام سے رابطہ استوار کرنے کے لیے ایک اہم ذریعہ ثابت ہو گا۔ ‘‘ ۱۹۳۷ء میںمسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لکھنو میں منعقد ہوا۔ یہ اجلاس مسلم لیگ کی تنظیم نو کے زمانے کا پہلا اجلاس تھا۔ اور مسل لیگ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس اجلاس میں آسام بنگال اورپنجاب کے وزرائے اعظم نے مسلم لیگ میںشمولیت کا اعلان کیا جس سے مسلمانوں کے قومی اتفاق و اتحاد کا اظہار ہوا اور مسلم لیگ کی حیثیت بلند ہوئی۔ ۷؎ ڈاکٹر ممتاز حسین (مرتبہ) اقبال اور عبدالحق لاہور ۱۹۷۳ء ص ۴۴ یہ اجلاس ا س لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت کو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے تسلیم کر لیا اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفسیر کوپ لینڈ لکھتے ہیں: ’’تینوں مسلمان وزرائے اعظم کی شرکت نے مسلم لیگ میں زندگی کی جو روح پھونکی وہ تمام پرجوش تقریروں سے زیادہ تھی۔ مسٹر جناح کا شمار اگرچہ ہمیشہ ہندوستان کی صف اول کے لیڈروں میں ہوتا رہا ہے لیکن انہیں اب تک اپنی قوم کی مجموعی اور غیر مشروط تائید کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کے قائد اعظم ہونے کے بجائے وہ ہمیشہ مسلمانوں کے ایک خاص طبقے کے لیڈڑ سمجھے جاتے تھے۔ انہیں سیاسیات کے بائیں بازا کا ایک ایسا لیڈر خیال کیا جاتا تھا جو برطانوی اقتدار کا سخت مخالف اور ہندوستانی قومیت کا بے خوف علمبردار تھا۔ انہی خصائص کی بنا پر قدامت پسند مسلمان انہیں کانگریس کا حامی سمجھنے پر مجبور تھے۔ لیکن اب جناح کی حیثیت یہ نہیںرہی تھی کہ وہ مسلمانوں کے بہت سے لیڈروں میںسے ایک لیڈر نہیں تھے۔ بلکہ پوری قوم کے تنہا اور واحد نمائندہ لیڈر بن گئے تھے ‘‘ ۸؎ قانون ہند ۱۹۳۵ء کے تحت ۳۷۔۱۹۳۶ء میں ملک بھر میں عام انتخابات ہوئے۔ ان میں کانگریس کو نمایاں کامیابی ہوئی۔ اس سے کانگرس کو اپنی قوت کا احساس ہوا۔ چنانچہ کانگرس کے صدر پنڈت جواہر لا ل نہرو (۱۸۸۹ئ۔۱۹۶۴ئ) نے ۱۹ مارچ ۱۹۳۷ کو دہلی می ایک اال انڈیا نیشنل کنونشن منعقد کی ۔ جس میں کانگرس کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والی تمام صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے شرکت کی۔ اس کنونشن میں تقریر کرتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو نے (۱۸۸۹ئ۔ ۱۹۶۴ئ) نے کہا کہ: ’’ہم لوگ مدت تک اس وہم میں مبتلا رہے کہ فرقہ پرست لیڈروں سے مفاہمت یا سمجھوتہ کرنے سے مسائل کا تصفیہ ہوجائے گا۔ اس چکر میں پڑ کر ہم نے عوام کو نظر انداز کیے رکھا۔ یہ طرز عمل غلط اوریہ پالیسی بیکار تھی۔ آئندہ ہم کبھی اس طرف رجوع نہیںکریں گے۔ ۸؎ کوپ لینڈ Indian Politicsص۸۳۔ تعجب ہے کہ ابھی تک ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلمانوں کو ایک الگ گروہ تصورکر کے ہندوئوں سے سمجھوتہ کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ انداز فکر قرون وسطیٰ میں رائج ہو تو موجودہ زمانے میں اسے کوئی نہیں پوچھتا۔ آج کل ہر چیز پر اقتصادی نقطہ نظر سے غور کیا جاتا ہے۔ جہاں تک افلاس بے کاری اور قومی آزادی کا سوال ہے ہندوئوں مسلمانوں سکھوں اور مسیحیوں میں کوئی فرق نہیں ہے چوٹی کے فرقہ پرست لیڈر ہر وقت حصے بخرے اور بٹوارے کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ان کی قوم کو ملازمتوں کو چھوڑ کر جب ہم براہ راست عوام سے ملتے ہیں تو ہمیں وہی مشترکہ مسائل کارفرما نظر آتے ہیں جن کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے یعنی افلاس بے کاری اور قومی آزدی کی لگن۔ ان نام نہاد فرقہ وارانہ مسائل کے حل کابھی یہی طریقہ ہے کہ لیڈروں کو نظر انداز کر کے براہ راست عوام سے ربط و ضبط پیدا کیا جائے… اگرچہ الیکشن میں ہم مسلمانوں کے حلقوں میںاپنے امیدوار منتخب نہیں کر اسکے۔ لیکن اس کے باوجود مسلمان عوام میں ہم کامیاب و سرخرو ہیں۔ یہ لوگ یقینا فرقہ پرستی کی لعنت کو ترک کرنے پر کسی حد تک آمادہ ہو گئے ہیں۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ان حالات سے فائدہ اٹھائیں اور مسلمان عوام اور ان کے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کر کے ملک کو ہر نوع کی فرقہ پرستی سے پاک کر دیں‘‘ ۹؎ پنڈت جواہر لال نہرو کی متذکرہ بالا تقریر کے پیش نظر علامہ اقبال نے ۲۰ مارچ ۱۹۳۷ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کے نام اپنے خط میں تحریر کیا کہ: ۹؎ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی۔ اقبال کے آخری دو سال ۔ کراچی ۱۹۶۱ء ص ۸۳‘۳۸۱ ’’میرا خیال ہے کہ آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کا وہ خطبہ جو انہوںنے آل انڈیا نیشنل کنونشن میں دیا ہے پڑھا ہو گا اوراس کے بین السطور جو پالیسی کارفرما ہے اس کو آپ نے بخوبی محسوس کر لیا ہو گا۔ جہاں تک اس کا تعلق ہندوستان کے مسلمانوں سے ہے میں سمجھتا ہوں کہ آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ نئے دستور نے مسلمانوں کو کم از کم اس بات کا ایک نادر موقع دیا ہے کہ وہ ہندوستان اور مسلم ایشیا کی آئندہ سیاسی ترقی کے پیش نظر اپنی قومی تنظیم نو کر سکیں۔ اگرچہ ہم ملک کی دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں تاہم ہمیںاس حقیقت کو نظر انداز نہیںکرنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بہت حد تک ہندوستان کے مسلمانوں کی مکمل تنظیم پر ہے اس لیے میر ی تجویز ہے کہ آل انڈیا نیشنل کنونشن کو ایک موثر جواب دیا جائے۔ آپ جلد از جلد دہلی میں ایک آل انڈیا مسلم کنونشن منعقد کریں۔ جس میں شرکت کے لیے نئی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے علاوہ دوسرے مقتدر مسلم رہنمائوں کو بھی مدعو کریں۔ اس کنونشن میں پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ بیان دیں کہ سیاسی مطمع نظر کی حیثیت سے مسلمانان ہند ملک میںجداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیںَ اوریہ انتہائی ضروری ہیکہ انرون اور بیرون ہند کی دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک میں صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے اسلامی نقطہ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیی اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے۔ اور کسی صورت سے بھی یہ اقتصادی مسئلہ سے کم اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر آپ ایسی کنونشن منعقد کر سکیں تو پھر ایسے مسلم اراکین اسمبلی کی حیثیت سے اامتحان ہو جائے گا۔ جہوںنے مسلمانوں کی امنگوں اور مقاصد کے خلاف جماعتیں قائم کر رکھی ہیںَ دمزید برآں اس سے ہندوئوں پر عیاں ہو جائے گا کہ کوئی سیاسی حربہ خواہ کیسا ہی عیارانہ کیوں نہ ہو پھربھی مسلمانان ہند اپنے ثقافتی وجود کو کسی طور نظر انداز نہیں کر سکتے‘‘۔ ۲۲ اپریل ۱۹۳۷ء کو دوبارہ علامہ اقبال نے قائد اعظم کے نام اپنے خط میں اپنی تجویز کو دہرایا کہ: ’’ہمیں فوراً ایک آل انڈیا کنونشن (کسی بھی مقام پر) مثلاً دہلی میں منعقد رکر کے حکومت اور ہندوئوں کو ایک بار پھر مسلمانان ہند کی پالیسی سے آگاہ کر دینا چاہیے‘‘۔ آل انڈیا نیشنل کنونشن کے اختتام کے فوری بعد کانگرس نے اپنی توجہ مسلمانوںکی طرف مبذول کر دی اور اس سلسلہ میںکانگرس کی ہائی کمان کے تحت ایک الگ شعبہ مسلم رابطہ عوام قائم کیا گیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو کانگرس میں جذب کر کے ان کے جداگانہ وجود کو ختم کیا جائے۔ ’’مگر مسلمان کانگرس کے فریب میں نہ آئے اور اس کی یہ کوششیں ناکام ہوئیں۔ بلکہ ا س کے برعکس مسلمانوں نے اپنے باہمی انتشار کو ختم کر کے آپ کو متحد کیا اور مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو گئے۔ اور ضمنی انتخابات سے ثابت ہو گیا کہ مسلمان مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔ جو نہ صرف مسلمانوں کے حقوق اورمفادات کی نگراں ہے بلکہ ان کے جداگانہ قومی تشخص کی حامل بھی ہے‘‘ ۱۰؎ علامہ اقبال نے اپنے خطوط میں سیاسی مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی غربت و افلاس کے علاج کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کو مشورہ دیا کہ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی اپنی جؤداگانہ ریاست ہو اور اس میں نظام شریعت کا نفاذ ہو۔ اس سے مسلمانوں کی سیاسی اور اقتصادی زندگی درست ہو سکے گی۔ آ پ نے ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کو قائد اعظم کے نام اپنے خط میں تحریر کیا کہ: ’’اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد مٰں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حق معاش محفوظ ہو جات اہے لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہاہے اور اب بھی میرا یہ ایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت (روٹی کا مسئلہ) اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہو سکتا ہے‘‘۔ ۱۰؎ محمد جہانگیر عالم تحریک پاکستان لائل پور ۱۹۷۵ء ص ۱۵۷ پنڈت جواہر لال نہرو ۱۸۸۹ئ۔۱۹۶۴ئ) بہت حد تک اشتراکیت کی طرف مائل تھے وہ ملکی مسائل ک ومادی نقطہ نگاہ سے دیکھنے کے قائل تھے۔ آل انڈیا نیشنل کنونشن کے خطبہ میں انہوںنے عوام کی غربت وافلاس کاذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کو کانگرس کے دام فریب میں لانے کی ناکام کوشش کی۔ پنڈت جواہر لال نہرو (۱۸۸۹ء ۔ ۱۹۶۴ئ) کی اشتراکیت پر بحث کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنے مذکورہ بالا خط میں تحریر کیا کہ: ’’جواہر لال کی بے دین اشتراکیت میں مسلمانوںمیں کوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گی۔ جواہر لال کی اشتراکیت کا ہندوئوں کی ہیت سیاسیہ کے ساتھ پیوند خود ہندوئوں کے آپس میں خون و خرابہ کا باعث ہو گا۔ اشتراکی جمہوریت اور برہمنیت کے درمیان وجہ نزاع برہمنیت اور بدھ مت کے درمیان وجہ نزاع سے مختلف نہیںہے۔ آیا اشترایت کا حشر ہندوستان میں بدھ مت کا سا ہو گا یا نہیں؟ میں اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ لیکن میرے ذہن میں یہ بات صاف ہے کہ اگر ہندو دھرم اشتراکی جمہوریت اختیار کر لیتا ہے تو خود ہندو دھرم ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام کے لیے اشتراکی جمہوریت کو مناسب تبدیلیوں اور اسلام کے اصول شریعت کے ساتھ اختیار کر لینا کوئی انقلاب نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع ہو گا۔ موجودہ مسائل کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ مسلم ہندوستان کے ان مسائل کا حل آسان طور پر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی رائے میں ا س مطالبہ کا وقت نہیں آ پہنچا؟ شاید جواہر لال کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ ایک بہترین جواب ہے‘‘۔ علامہ اقبال کے ان خطوط میں سے ۲۱ جون ۱۹۳۷ء کو تحریر کیا گیا خط اپنے مباحث کے اعتبار سے بڑا منفرد اور اہم ہے۔ اس خط میں زمانے کے برصغیر پاک و ہند کے سیاسی حالات اور مسائل کے بارے میں علامہ اقبال کے خیالات کی پوری جھلک موجود ہے۔ اس زمانے میں آئے دن ہندو مسلم فسادات ہوتے رہتے تھے۔ مسلم اقلیتی علاقوں کے علاوہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی ہندو مسلم فسادات عام تھے۔ علامہ اقبال کے نزدیک ان فسادات کے اسباب نہ تو مذہبی تھے اور نہ ہی اقتصادی بلکہ خالصتاً سیاسی تھے۔ انہوںؤنے ان فسادات کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنے خط میں تحریر کیا کہ: ’’میں عرض کرتا ہوں کہ ہم فی الحقیقت خانہ جنگی کی حالت ہی میں ہیں اگر فوج اور پولیس نہ ہو تو یہ (خانہ جنگی) دیکھتے ہی دیکھتے پھیل جائے۔ گزشتہ چند ماہ سے ہندو مسلم فسادات کا ایک سلسلہ قائم ہو چکا ہے۔ میں نے تمام صورت حال کا اچھی طرح سے جائزہ لیا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ان حالات کے اسباب نہ مذہبی ہیں اورنہ اقتصادی بلکہ خالص سیاسی ہیں یعنی مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی ہندوئوں اور سکھوں کا مقصد مسلمانوں پر خوف و ہراس طاری کرنا ہے‘‘۔ قانون ہند ۱۹۳۵ء کو برصغیر پاک و ہند کی تما م سیاسی جماعتوںنے ناپسند کیا۔ علامہ اقبال بھی اس سے مطمئن نہیںتھے۔ آپ کا یہ خیال تھا کہ یہ قانون مسلمانوں کے مفاات اور حقوق کے تحفظ اور نگہداشت کے لیے ناکافی ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کو ایک موقع ضرور مہیاکر رہا ہے کہ وہ اپنی قومی تنظیم کر سکیں۔ اس قانون کے نفاذ ؤسے مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی مسلمان ہندوئوں کے رحم و کرم پر بھروسہ کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ مذکورہ بالا خط میںعلامہ اقبال نے اس قانون کے بارے میں تحریر کیا کہ: ’’ نیا دستور (قانون ہند ۱۹۳۵ئ) کچھ اس قسم کا ہے کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی مسلمانوں کو غیر مسلموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم ناانصافی برتنا پڑتی ہے تاکہ وہ لوگ جن پر وزارت کا انحصار ہے خوش رہ سکیں اور ظاہر کیاجا سکے کہ وزارت قطعی طور پر غیر جانب دار ہے۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ ہمارے پاس اس دستور کو رد کرنے کے خالص وجوہ موجود ہیں مجھے تو ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ نیا دستور ہندوئوں کی خوشنودی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہندو اکثریتی صوبوں میں ہندوئوں کو اکثریت حاصل ہے اور وہ مسلمانوں کو بالکل نظر اندا زکر سکتے ہیں مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو کاملاً ہندوئوں پر انحصار کرنے کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے۔ میرے ذہن میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں کہ یہ دستور ہندوستانی مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہے‘‘۔ اپنے اسی خط میں علامہ اقبال نے تحریر کیا کہ کانگرس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو نے واضح الفاظ میں مسلمانوں کے جداگانہ قومی وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن ہندوئوں کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہندو مہا سبھا جو کہ ہندو عوام کی نمائندہ جماعت ہے متحدہ قومیت کے نظریہ کی حامی نہیںہے۔ جیسا کہ ہندو مہا سبھا کے صدر ساور کر (۱۸۸۳ئ۔۱۹۶۶ئ) نے ۱۹۳۷ء میں اپنی ایک تقریر میں کہا کہ: ’’یہ ایک ٹھوس واقعہ ہے کہ ہمیں یہ نام نہاد رفرقہ وارانہ مسائل ہندو اور مسلمانوں کے درمیان صدیوں کی ثقافتی مذہبی اور قومی معاندت سے ورثے میں ملے ہیں۔ آج ہندوستان کو ایک متحد اور ہم آہنگ قوم فرض نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے برعکس ہندوستان میںدو بڑی قومیں ہیں ایک ہندو اور دوسری مسلمان ۱۱؎ ۔‘‘ ہندوستان کے سیاسی مسائل کا حل علامہ کے نزدیک یہی تھا کہ: ’’ملک کی از سر نو تقسیم کی جائے جس کی بنیاد نسلی مذہبی او رلسانی اشتراک پر ہو۔ ہندوستان بھر کو ایک ہی وفاق میں مربوط رکھنے کی تجویز بالکل بے کار ہے مسلم صوبوںکے ایک جداگانہ وفاق کا قیام صرف واحد راستہ ہے جس سے ہندوستان میں امن و امان قائم ہو گا اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ و تسلط سے بچایا جا سکے گا۔ کیوں نہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ اقوام تصور کیا جائے جنہیں ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دوسری اقوام کی طرح حق خود ارادی حاصل ہو‘‘۔ ۱۱؎ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ (اردو ترجمہ) کراچی ۱۹۶۷ء ص ۳۶۹۔ قانون ہند ۱۹۳۵ء کی منظور ی سے پہلے برطانوی حکومت نے ہندوستان کی مجالس قانون ساز میں مختلف اقوام کی نمائندگی کے تعین کے لیے ایک اعلان کیا جو کمیونل ایوارڈ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی روسے مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا اصول تسلیم کر لیا گیا۔ اگرچہ کمیونل ایوارڈ میں مسلمانوں کے تمام مطالبات کو قبول نہیںکیا گیا۔ لیکن مسلمانوں نے اسے ملک کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر منظور کر لیا۔ علامہ اقبال بھی کمیونل ایوارڈ کو اس لحاظ سے پسند کرتے ہیں کہ اس میں ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی وجود کو تسلیم کر لیاہے۔ جب علامہ اقبال کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ اس ایوارڈ کو تبدیل کروانے کے درپے ہیں تو اا پ نے ۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء کے خط میں قائد اعظم کو تحریر کیا کہ: ’’مسلم لیگ ایک مناسب قراردا دکی صورت میں کمیونل ایوارڈ سے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان یا مکرر وضاحت کر دے۔ پنجاب اور معلوم ہوا ہے کہ سندھ میں بھی بعض فریب خوردہ مسلمان اس فیصلہ کو اس طرح تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں کہ یہ ہندوئوں کے حق میں زیادہ مفید ہو جائے ایسے لوگ اس غلط فہمی مین مبتلا ہیں کہ ہندوئوں کو خوش کرکے وہ اپنا اقتدار بحال رکھ سکیں گے۔ ذاتی طور پر میں بھی سمجھتا ہوں کہ برطانوی حکومت ہندوئوں کو خوش کرنا چاہتی ہے۔ جو کمیونل ایوارڈ میں گڑبڑ کرانے کو خوش آمدید کہیں گے لہٰذا وہ (برطانوی حکومت) کوشش کر رہی ہے کہ اپنے مسلم ایجنٹوں کے ذریعے اس میں گڑبڑ کرائے‘‘۔ اسی خط کے اختتام پر آپ نے دوبارہ لکھا کہ: ’’مسلم لیگ یہ قرار داد پاس کرے کہ کوئی صوبہ دوسری اقوا م کے ساتھ کمیونل ایوارڈ سے متعلق کوئی سمجھوتہ کرنے کا مجاز نہ ہو گا۔ یہ ایک کل ہند مسئلہ ہے اور صرف مسلم لیگ ہی کو اس کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ ممکن ہے کہ آپ ایک قدم آگے بڑھ کر کہیں کہ موجودہ فضا کسی فرقہ ورانہ سمجھوتے کے لیے مناسب نہیں‘‘۔ جنگ عظیم کے بعد سے دنیائے اسلام گوناگوں مسائل سے گھری ہوئی ہے اور ان مین سے سب سے زیاادہ اہم فلسطین کا مسئلہ ہے مسئلہ فلسطین کو علامہ اقبال کے خیال میں اگر اس کے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو فلسطین ایک خالص اسلامی مسئلہ ہے جو تمام دنیائے اسلام پر شدت کے ساتھ اثر اندا زہو گا ۱۲؎۔ عالم اسلام اس مسئلہ سے مضطرب ہے آج بھی یہ مسئلہ مسلمانوں کے لیے وبال جان بنا ہوا ہے کئی جنگیں ہو چکی ہیں مگر یہ مسئلہ طے نہیں ہوا۔ علامہ اقبال کا خیال تھا کہ مسلم لیگ کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس سے جہاں عربوں کی حمایت ہو گی وہاں اس کے ساتھ ساتھ مسلمانان ہند کو متحد کرنے کا موقع بھی ملے گا جس سے مسلم لیگ کی تحریک کو فائدہ پہنچے گا۔ چنانچہ آپ نے ۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو قائد اعظم کے نام ایک خط میں تحریر کیا کہ: ’’مسئلہ فلسطین نے مسلمانوں کو مضطرب کر رکھا ہے مسلم لیگ کے مقاصد کے لیے عوام سے رابطہ پیدا کرنے کا ہمارے لیے یہ نادر موقع ہے ۔ مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ اس مسئلہ پر ایک زور دار قرارداد ہی منظور نہیں کرے گی بلکہ لیڈروں کی ایک غیر رسمی کانفرنس میں کوئی ایسا لائحہ عمل بھی تیار کیا جائے گا کہ جس میں مسلمان عوام بڑی تعداد میں شامل ہو سکیں۔ اس سے ایک طرف تو مسلم لیگ کو مقبولیت حاصل ہو گی اور دوسری طرف شاید فلسطین کے عربوں کو فائدہ پہنچ جائے ۔ ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کے لیے جس کا اثر ہندوستان اور اسلام پر پڑتا ہو جیل خانے کے لیے جاننے کے لے تیار ہوں۔ مشرق کے عین دروازہ پر ایک مغربی چھائونی کا قیام اسلام اور ہندوستان دونوں کے لیے پرخطر ہے‘‘۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلا س منعقدہ لکھنو ۱۵۔۱۸ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں اپنے خطبہ صدارت میں مسئلہ فلسطین پر تفصیلی بحث کی۔ آپ نے اپنی تقریر کے دوران فرمایا کہ میں حکومت برطانیہ کو یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اگر اس نے مسئلہ فلسطین کا جرات دلیری اور انصاف کے ساتھ فیصلہ نہ کیا تو یہ حکومت برطانیہ کی تاریخ میں ایک جدید انقلاب کا دروازہ کھول دے گا۔ میں صرف مسلمانان ہند کی نہیں بلکہ اس معاملہ میں مسلمانان عالم کی ترجمانی کر رہاہوں۔ اور تمام انصاف پسند اور فکر من اصحاب اس بات میں میری تائید کریں گے۔ ۱۲؎ لطیف احمد شیروانی حرف اقبال لاہور ص ۲۱۹ جب میں یہ کہوں گا کہ اگر برطانیہ نے اپنے ان مواعید عزائم اور اعلانات کو جو زمانہ قبل و بعد جنگ تمام دنیا کے روبرو غیر مشروط طور پر کیے گئے تھے پورا نہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہا ہے۔ میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ عربوں کے اندر نہایت شدید احساس پیداہو چکا ہے اور حکومت برطانیہ جھلا کر اور جوش میں آ کر اعراب فلسطین کے خلاف نہایت سخت تشدد کے استعمال پر اتر آئی ہے۔ مسلمانان ہندوستان عربوں کو ا س منصفانہ اور جرات آموزانہ جہاد میں ان کی ہر ممکن امداد کریں گے چنانچہ آل انڈیا مسل لیگ کی طرف سے میں ان کو یہ پیغام بھیجنا چاہتاہوں کہ اس منصفانہ جنگ میں وہ جس عزم اور حوصلے کے ساتھ لڑ رہے ہیں وہ اجام کار کامیاب ہو کر رہیں گے‘‘ ۱۳؎ اس اجلاس میں ایک قرار داد بھی منظور کی گئی جس میں حکومت برطانیہ کوآگاہ کیا گیا کہ اگر وہ بیت المقدس میں یہودیوں کی حمایت کی پالیسی سے باز نہ آئے گی تو السمای ممالک کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے ہندوستان کے مسلمان بھی برطانیہ کو اسلام کا دشمن تصور کریں گے اور مجبوراً اس کے رد عمل کے لیے مذہب کی ہدایت کے مطابق ان کو کوئی اور پالیسی اختیار کرنا پڑے گی۔ علاوہ ازیں ۱۷ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو مسلم لیگ نے قاہرہ فلسطین کانفرنس میں اپنا ایک وفد بھیجا کو عبدالرحمن صدیقی (وفات ۱۹۵۳ئ) خلیق الزماں (۱۸۸۹۔۱۹۷۳ئ) اور مولوی مظہر الدین (وفات ۱۹۳۹ئ) پر مشتمل تھا ۔ ۱۴؎ جناح سکندر معاہدہ ان خطوط کا ایک دلچسپ اور اہم مبحث ہے ۔ یہ معاہدہ پنجاب کی سیاسی تاریخ کا اہم باب ہے۔ مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنو ۱۹۳۷ء میں پنجاب کے وزیر اعظم سر سکندر حیات خان (۱۸۹۲ئ۔۱۹۴۲ئ) نے مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی پارٹی کے مسلم اراکین کو بھی مسلم لیگ میں شمولیت کے لیے کہیں گے۔ یہ اعلان تاریخ میں جناح سکندر معاہدہ کے نام سے مشہور ہے۔ علامہ اقبال کے خطوط قائد اعظم کے نام محررہ ۲۵ جون ۱۹۳۶ء ۲۳ اگست ۱۹۳۶ء ‘ ۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء ۳۰ اکتوبر یکم نومبر ۱۹۳۷ء اور ۱۰ نومبر ۱۹۳۷ء میں اس معاہدہ کا ذکر کسی نہ کسی انداز میں موجود ہے۔ ۱۳؎ رئیس احمد جعفری۔ خطبات قائد اعظم لاہور ص ۹۔۱۰۸ ۱۴؎ رئیس احمد جعفری۔ قائد اعظم اور ان کا عہد۔ لاہور ص ۶۳۲ قانون ہند ۱۹۳۵ء کے نفاذ سے برصغیر پاک و ہند کی سیاسیات میں ایک نیا تموج پیدا ہوا اور ملک کی سیاسی صورت حال تیزی کے ساتھ تبدیل ہونے لگی۔ انتخابات میں غیر متوقع کامیابی کے بعد کانگرس بگولے کی طرح برصغیر کے افق پر رقص کناں تھی۔ سات صوبوں میں اسے واضح اکثریت حاصل تھی اوروہاں اس کی حکومتیں قائم ہو گئیں۔ صوبہ سرحد۔ سندھ اور آسام میں کانگرس غیر کانگرسی وزارتوں کے لیے خطرہ بنی ہوئی تھی۔ پنجاب میں بھی کانگرس یونینسٹ پارٹی کی حکومت پر دھاوے بول رہی تھی پنڈت جواہر لال نہرو (۱۸۸۹ئ۔۱۹۶۴ئ) نے پنجاب کے دورہ کے دوران ایک مقام پر تقریر کرتیہوئے عوام سے اپیل کی کہ یونینسٹ وزار ت کے کوڑے کرکٹ سے صوبے کے آنگن کو پاک کر دیں۔ اسی اثناء میں پنجاب میں مسلم لیگ روز بروز مقبول ہو رہی تھی۔ خصوصاً نوجوان طبقہ علامہ ابال کے زیر اثر پنجاب میں مسلم لیگ کے لیے بڑ ھ چڑ ھ کر کام کر رہا تھا۔ اس طرح سر سکندر حیات خان (۱۸۹۲ئ۔۱۹۴۲ئ) کی یونینسٹ پارٹی ایک طرف کانگرس کی یلغار سے خوفزدہ تھی۔ اور دوسری طرف اسے مسلم لیگ سے خطرہ درپیش تھا۔ ان حالات میں سر سکندر حیات نے مسلم لیگ کے لکھنو اجلاس میں شرکت کی اورمسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے سر سکندر حیات خان نے مندرجہ ذیل تحریر پڑھ کر سنائی کہ: ’’(۱) سر سکندر حیات خان وپاس جا کر اپنی پارٹی کا ایک خاص اجلاس منعقد کریں گے۔ جس میں پارٹی کے ان تمام مسلمان ممبروں کوجو ابھی تک مسلم لیگ کے ممبر نہیںبنے ہدایت فرمائیں گے کہ وہ سب مسلم لیگ کے حلق نامے پر دستخط کر کے لیگ میں شامل ہو جائیں۔ اندریں حالات وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی اور صوبائی بورڈ کے قواعد و ضوابط کی پابندی کریں گے۔ لیکن یہ معاہدہ یونینسٹ پارٹی کی موجودہ کولیشن پر اثر اندا ز نہیں ہو گا۔ (ب) اس معاہدے کے قبول کے بعد آئندہ مجلس قانون ساز کے عام اورضمنی انتخابات میں وہ متعدد فریق جو موجودہ یونینسٹ پارٹی کے اجزائے ترکیبی ہیں متحدہ طور پر ایک دوسرے کے امیدواروں کی حمایت کریںگے۔ (ج) یہ کہ مجلس قانون ساز کے وہ مسلم ارکان جو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں یا اب لیگ کی رکنیت قبول کرتے ہیں اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی متصور ہوں گے ایسی مسلم لیگ پارٹی کو اجازت ہو گی کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاسی پارٹی اور پروگرام کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی دوسری پارٹی سے تعاون یا اتحاد کرے۔ اس قسم کا تعاون انتخابات کے ماقبل یا بعد ہر دو صورتوں میںکیا جا سکتا ہے۔ نیز پنجاب کی موجودہ متحدہ جماعت اپنا موجودہ نام یونینسٹ پارٹی برقرار رکھے گی۔ (د) مذکورہ بالا معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی بورڈ کی تشکیل از سر نو عمل میںلائی جا ئے گی‘‘۔ موجودہ بالا تحریر جو جناح سکندر معاہد ہ کے نام سے مشہور ہوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی (وفات ۱۹۸۹ئ) رقم طراز ہیں کہ: ’’یہ پیکٹ بڑا مبہم غیر واضح اور گومگو تھا۔ جس میں نہ مسلم لیگ کی حیثیت واضح کی گئی تھی اور نہ یونینسٹ پارٹی کا موقف کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ سر سکندر حیات اپنی جگہ خوش تھے کہ انہیں کانگرس کے مقابلے میں آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت حاصل ہو گئی ہے اور اب کانگرسی اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے یونینسٹ پارٹی کے مسلمان ممبروں کو برگشتہ نہیں کر سکے گی۔ ادھر مسٹر جناح اپنی جگہ مطمئن تھے کہ پنجا ب کا وزیر اعظم لیگ میں شامل ہو گیا ہے اس لیے لیگ کی نمائندہ حیثیت مسلم ہو جائے گی‘‘ ۱۵؎ پنجاب میں جناح سکندر معاہدہ پر کسی خوشگوار رد عمل کا اظہار نہ ہوا بلکہ پنجاب کی سیاسی صورتحال خراب ہوئی۔ اس معاہدہ کے متعلق سر سکندر حیات نے ایک اخباری بیان میں اعلانکیا کہ پنجاب میں اس وقت جو جماعتیں جس جس طرح کام کر رہی ہیں ان میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ ۱۶؎۔ اسی قسم کا ایک بیان راجہ غضنفر علی خان (۱۸۹۵ئ۔ ۱۹۶۳ئ۔ ) نے دیا۔ ۱۷؎ ۱۵؎ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی۔ کتاب مذکور صفحہ ۸۹۔۴۸۷ ۱۶؎ ایضاً ص ۴۹۲ ۱۷؎ ایضاً ص ۴۹۳ اس کے بعد یونینسٹ پارٹی کے ایکدوسرے لیڈر سر چھوٹو رام نے ایک بیان دیا ۱۸؎ جس میں انہوںنے اپنے انداز میں جناح سکندر معاہدے کی وضاحت کی۔ ان کے جواب میں بیرسٹر غلام رسول خان (وفات ۱۹۴۹ئ) اور ملک برکت علی (۱۸۸۵ئ۔۱۹۴۶ئ) نے بیانات دیے ۱۹؎ ا سطرح ان وضاحتی بیانات سے معاہدہ کی عجیب و غریب تاویلیں ہونے لگیںَ جس سے پنجاب میں مسلم لیگ کی تنظیم کا کام بہت حد تک متاثر ہوا۔ اس صورت حال سے متعلق علامہ اقبال نے قائد اعظم کو باخبر رکھنے کے لیے ۳۰ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو تحریر کیاتھا کہ: ’’سننے میں آیا ہے کہ یونینسٹ پارٹی کا ایک حصہ مسلم لیگ کے نصب العین پر دستخط کرنے کو تیار نہیں۔ ابھی تک سر سکندر اور ان کی پارٹی نے اس پر دستخط نہیں کیے۔ مجھے آج صبح معلوم ہواہے کہ وہ مسلم لیگ کے آئندہ اجلاس تک انتظار کریں گے جیسا کہ خودان میں سے ایک ممبر نے مجھے بتایا کہ ان کا منشاء صوبائی مسلم لیگ کی سرگرمیوں کو کمزور کرنا ہے۔ بہرحال میں چند روزمین ٓپ کو پورے کوائف سے مطلع کر دوں گا۔ اور پھر ااپ کی رائے درکار ہو گی کہ ہم کس طرح کام جاری رکھیں‘‘۔ اسی دن سر سکندر حیات نے علامہ اقبال سے ملاقات کی۔ مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی کے اختلافات پر بات چیت ہوئی۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال نے اگلے دن یعنی یکم نومبر ۱۹۳۷ء کو قائد اعظم کے نام اپنے خط میں تحریر کیا کہ: ’’سر سکندر حیات خان اپنی پارٹی کے چند اراکین کے ہمراہ کل مجھے ملے۔ ہمارے درمیان دیر تک مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی کے باہمی اختلافات پر گفتگو ہوتی رہی دونوںفریقوں سے اخبارات کو بیان جاری کیے گئے ہر ایک فریق جناح سکندر معاہدہ کے بارے میں اپنی اپنی تاویل کرتا ہے۔ ۱۸؎ ایضاً ص ۴۹۵ ۱۹؎ ایضاً ص ۶۔۵۰۴ اس سے بہت زیادہ غلط فہمی پیداہو گئی ہے جیسا کہ میں نے پہلے آپ کو لکھا تھا کہ یہ سارے بیانات چند روز میں ااپ کو ارسال کر دوں گا۔ سردست میری درخواست ہے کہ آپ مجھے اس سمجھوتے کی ایک نقل جس پر سر سکندر کے دستخط ہیں اور جو میرے علم کے مطابق آپ کے پاس ہے جلد بھجوادیجیے۔۔ میں نے آپ سے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ آیا آپ صوبائی پارلیمانی بورڈ کویونینسٹ پارٹی کے اخیتار میں دینے پر رضامند ہیں۔ سر سکندر کا مجھ سے یہ کہنا ہے کہ آپ اس پر راضی ہو گئے ہیںَ لہٰذا ان کا مطالبہ ہے کہ یونینسٹ پارٹی کی بورڈ میں اکثریت ہونی چاہیے۔ جہاں تک میرا خیال ہے جنا ح سکندر معاہدہ میںایسی کوئی بات نہیں ہے‘‘۔ ۱۰ نومبر ۱۹۳۷ء کو علامہ اقبال نے قائد اعظم کو ایک اور خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ: ’’سر سکندر حیات اور ان کے احباب سے متعدد گفتگوئوں کے بعد اب میری قطعی رائے ہے کہ سر اکندر اس سے کم کسی اور چیز کے خواہش مند نہیں کہ مسلم لیگ اور صوبائی پارلیمانی بورڈ پر ان کا مکمل قبضہ ہو آپ کے ساتھ ان کے معاہدہ میں یہ مذکورہے کہ پارلیمانی بورڈ کی نئے سرے سے تشکیل کی جائے گی اور اس میں یونینسٹ پارٹی کو اکثریت حاصل ہو گی۔ سر سکندر کہتے ہیں کہ آپ نے ان کی بورڈ میں اکثریت تسلیم کر لی ہے۔ میں نے پچھلے دنوں آپ کو ایک خط میں لکھا تھا کہ کیا واقعی آپ نے پارلیمانی بورڈ میں یونینسٹ پارٹی اکثریت منظور کر لی ہے۔ ابھی تک آپ نے اس بارے میں مجھے کوئی اطلاع نہیں دی۔ ذاتی طور پر مجھے انہں وہ کچھ دینے میں کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا جس کے وہ خواہش مند ہیں لیکن جب وہ مسلم لیگ کے عہدیداروں کی مکمل ردوبدل کا مطالبہ کرتے ہیں تو منشائے معاہدہ سے تجاوز کر جاتے ہیں بالخصوص سیکرٹری کی علیحدگی کا مطالبہ حالانکہ انہوںنے مسلم لیگ کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ کی مالیات پر بھی ان ہی کے آدمیوں کا اختیار ہو۔ میرے خیال میں تو وہ اس طرح مسلم لیگ پر قبضہ کر کے اسے ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ صوبے کی رائے کی پوری جان پہچان رکھتے ہوئے میں مسلم لیگ کو سر سکندر اور اس کے احباب کے حوالے کر دینے کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ معاہدے کے باعث پنجاب مسلم لیگ کے وقار کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ اور یونیسٹوں کے ہتھکنڈے اسے اور بھی نقصان پنچائیں گے۔ انہوںنے ابھی تک مسلم لیگ کے منشور پر دستخط نہیںکیے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ کرنا بھی نہیں چاہتے‘‘۔ یہ معلو م نہیں ہے کہ اس کے جواب میں قائد اعظم نے کیا تحریر کیا مگر یہ بات بلاشک و شبہ کہی جا سکتی ہے کہ قائد اعظم نے ا س سلسلہ میں علامہ اقبال کے خیالات سے اتفاق نہیں کیا۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے اس سلسلہ کے نقطہ نگاہ میں اختلاف کا سبب دونوں کا اپنا مزاج تھا۔ علامہ اقبال جو کہ بنیادی طور پر ایک فلسفی تھے ہر معاملہ کی گرائی تک نگاہ رکھتے تھے جب کہ قائد اعظم جو کہ ایک عملی سیاست دان تھے نگاہ معاملہ کی گہرائی کے ساتھ ساتھ اس کی گیرائی پر بھی ہوتی تھی۔ بات یہ تھی کہ اس زمانے میں کانگرس قائد اعظم کو بار بار ی کہتی تھی کہ مسلمانوں کی اکثریت کے صوبوں میں تو مسلم لیگ کو کوئی پوچھتا نہیں۔ یہ صرف مسلم اقلیتی صوبوں کا شوروغوغا ہے۔ اس کا بہترین جواب یہی تھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلم لیگ کا قیام کسی نہ کسی طرح موجود ہو۔ جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ مسلم اکثریتی صوبوں کے عوام مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔ بہرحال جناح سکندر معاہدہ سے برصغیر پاک و ہند کی سیاسیات میں مسلم لیگ کی حیثیت بلند ہوئی ہے۔ مفکر پاکستان علامہ اقبال کے خطوط محررہ ۲۸ مئی ۱۹۳۷ئ۔ اور ۲۱ جون ۱۹۳۷ء میں تصور پاکستان کی جھلک واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے علامہ اقبال نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے جداگانہ ملی تشخص کی خاطر اسلامی دنیا کی بات ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد میں کی تھی۔ آپ نے اپنے خطبہ صدارت میں فرمایا تھا کہ: ’’’میری خواہش ہے کہ پنجاب صوبہ سرحد‘ سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میںملا دیا جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت اختیار ی حاصل کرے خواہ اس کے باہر مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوںکو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی۔ ‘‘ ۲۰؎ خطبہ الہ آبادمیں علامہ اقبال نے خواہش ظاہر کی تھی کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اپنی جداگانہ ریاست ہونی چاہیی۔ اس کے بعد سے آپ نے اس خیال پر مزید غور و فکر شروع کر دیا۔ ۱۹۳۱ء میں آپ کا یہ خیال تھا کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں ی ایک الگ سیاسی تنظیم قائم کی جائے جس کے لیے کئی نام مثلا انڈیا کانفرنس مجلس ملی‘ حزب جمہور‘ حزب عوام وغیرہ آپ کے زیر غو ر تھے۔ ۲۱؎ ۔ ۱۹ اپریل ۱۹۳۱ء کو آپ نے سید نذیر نیازی (۱۹۰۰ء ۔ ۱۹۸۱ئ) کے نام اپنے ایک خط میں تحریر کیا کہ: ’’اپر انڈیا کانفرنس کاجلسہ بھی انشاء اللہ ہو گا‘‘ ۲۲؎ اپر انڈیا کانفرنس کے سلسلہ میں سیدنذیر نیازی اپنی کتاب ’’مکتوبات اقبال‘‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ الہ آباد سے واپس آئے تو شمال مغربی ہندوستان یعنی اسلامی اکثریت کے صوبوں کے مسلمان آبادیوں کے لیے ایک ایسی مشترکہ سیاسی جماعت کاتصور لے کر جس سے صوبائی امتیازات یک قلم ختم ہو جائیں اورمسلمان ایک الگ تھلگ قوم کی حیثیت سے اپنا سیاسی موقف متعین کر لیں۔ چنانچہ لاہور پہنچ کر انہوںنے اپر انڈیا کانفرنس کے انعقاد کا مصمم ارادہ کر لیا ۔ بلکہ ایک خطبہ ایڈریس بھی لکھنا شروع کر دیا تھا۔ جو شاید بعدمیں تلف کر دیا گیا۔ لیکن یہ کانفرنس کبھی منعقد نہیں ہو سکی۔ حالانکہ اکتوبر ۱۹۳۱ء میں جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت بھی وہ اپنے اس پہلے خیا ل پر قائم تھے بلکہ میرے استفسارات پر ارشاد فرمایا انتظار کرو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ ۲۰؎ لطیف احمد شیروانی ۔ کتاب مذکور۔ ص ۲۹ ۲۱؎ سید نذیر نیازی۔ مکتوب اقبال کراچی ص ۵۵ ۲۲؎ ایضاً ص ۵۴ یہ اشارہ تھا اس امر کی طرف کہ خطبہ لکھاجا رہا ہے۔ لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد سے علامہ کا کیامقصد تھا۔ اس لیے کہ اصولی اور عملی دونوں پہلوئوں سے وہ لیگ کی توجہ اس امر کی طرف منعطف کروا چکے تھے کہ شمال مغربی ہندوستان میں ایک اسلامی مملکت کا مطالبہ آزادی ہندوستان کے عین مطابق ہے۔ لہٰذا اب ایک نئی کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس سلسلہ میں راقم الحروف کی یہ گزارش ہے کہ حضرت علامہ سے بڑھ کر کسے معلوم تھا کہ مسلمانوں کی حیات ملی میںایک بہت بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ان کا ایک سیاسی اور اجتماعی موقف متعین کیا جائے۔ بغیر اس کے ناممکن تھا کہ ان کے اندر پھر سے زندگی کی روح عود کرے یوں بھی ایک ایسی اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ جو بلاد اسلامیہ سے متصل ہو اگر کہیں امکان تھا تو مغربی ہندوستان اور اس کے لیے ضروری تھا کہ ا س علاقے کے باشندوں کو ذہناً اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ لہٰذا وہ سب سے پہلے شمال مغربی ہندوستان ہی کو اپنا مخاطب بنا سکتے تھے۔ وہ چاہتے تھے اول اس خطے کے مسلمانوں کو برطانوی سیاست اور ہندو اکثریت کے منصوبوں سے خبردار کریں اورپھر بتائیں کہ ان کی دینی حمیت اور ملی عصبیت کا تقاضا کیا ہے … حضرت علامہ بجا طور پر مصر تھے کہ جب تک مسلمانوں کے الگ تھلکگ اور جداگانہ قومی وجود تسلیم نہیںکیا جاتا۔ ہندوستان کی سیاسی گتھی الجھتی ہی چلی جائے گی۔ بلکہ ان کا ارشاد بھی تو نہایت درست تھا کہ جدید سیاسی تصورات کا لحاظ رکھا جائے تو مسلمانوں ہی کو دراصل اس ملک میں ایک قوم کے درجہ حاصل ہے… شمال مغربی ہندوستان میں اس کانفرنس کا انعقا د یوں بھی ضرور ی تھا کہ یہیں ان تحریکوں نے سر اٹھایا تھا کہ جو دانستہ یا نادانستہ اسلام کے جسد ملی کو مجروح کر رہی تھیں دوسرے صوبوں مثلاً بنگال میں ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لیکن پھر ایک دفعہ جب اس شعور کو تقویت پہنچی کہ مسلمان ایک قوم ہیںلہٰذا ان کا ایک سیاسی موقف اور سیاسی مستقبل ہے علی ہذا القیاس ایک تہذیبی مطمع نظر تو اس کے اثرات سارے ملک میں پھیل سکتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اس کانفرنس کا انعقاد کیوں نہ ہو سکا۔ تو اس کی سب سے بڑی وجہ تو گول میز کانفرنسوں کا انعقاد تھا جن میں خود علامہ کو بھی شریک ہونا پڑا۔ ۲۳؎۔ ۲۳؎ ایضاً ص ۶۳۔۶۶ سید نذیر نیازی (۱۹۰۰ء ۔ ۱۹۸۱ئ) علامہ اقبال کی مجوزہ اپر انڈیا کانفرنس کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اپر انڈیا کانفرنس تمہید تھی مسلمانوں میں صحیح ملی شعور کی نشوونما اور اس کے پیش نظر (غیر منقسم ہندوستان میں اپنے صحیح مستقبل کے تعین کی۔ وہ ایک ناگزیر اقدام تھا جو اسلامی تہذیب و ثقافت کلچر کے تحفظ اور پرورش کا جو ایک مخصوص نقطہ نظر سے حیات فرد اورجماعت ہی کا دوسر ا نام ہے۔ وہ اعلان تھا کہ اپنے جداگانہ ملی وجود کا لہٰذا ازروئے آئین و سیاست اس اقتدر کے حصول کا جو بحیثیت اکثریت ان کا حق تھا۔ مختصراً یہ کہ وہ آرزو تھی انجام کار ایک اسلامی ریاست کے قیام اور تشکیل کی ۲۴؎۔ علامہ اقبال نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کے لیے اپنی تجویز جو کہ انہوںنے خطبہ الہ آباد میں پیش کی تھی قائد اعظم کی توجہ چاہی جس کے لیے آپ نے ۲۱ جون ۱۹۳۷ء کے خط میں تحریر کیا کہ انگلستان سے روانگی سے قبل لارڈ لوتھیان نے مجھ سے کہا ھتا کہ میری سکیم میں ہندوستان کے مصائب کا واحد ممکن حل ہے‘‘۔ علامہ اقبال نے اپنے اسی خط میں یہ بھی تحریر کیا کہ پنجاب کے کچھ مسلمان شمال مغربی ہندوستان میں مسلم کانفرنس کے انعقاد کے بارے میں تجویز پیش کر رہے ہیں۔ یہ اسی خیال کی بازگشت تھی جو ۱۹۳۱ء میں علامہ اقبال کے ذہن میں تھا جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے ۔ علامہ اقبال نے اپنے اس خط میں تحریر کیا ہے کہ: ’’پنجاب کے کچھ مسلمان شمال مغربی ہندوستان میں مسلم کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کر رہے ہیں اور یہ تجویز تیزی سے مقبولیت اختیار کر رہی ہے۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ ہماری قوم ابھی اتنی زیادہ منظم نہیں ہوئی اور نہ ہی ان میں اتنا نظم و نسق ہے اورشاید ہی کانفرنس کے انعقادکا ابھی موزوں وقت بھی نہیں۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے خطبہ میں کم از کم اس طریق عمل کی طرف اشارہ کر دینا چاہیے کہ جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر اختیار کرنا پڑے گا‘‘۔ ۲۴؎ ایضاً ص ۹۰۔۹۱ علامہ اقبال آہستہ آہستہ قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنی خواہش مطالبہ پاکستان کی طرف لا رہے تھے۔ بالآخر قائد اعظم کے الفاظ میں ان کے خیالات پورے طور پر میرے خیالات سے ہم آہنگ تھے… اور کچھ عرصہ بعد یہی خیالات ہندوستان کے مسلمانوں کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے۔ جس کا مظہر آل انڈیا مسلم لیگ کی ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی منظور کردہ قرارداد لاہور ہے جو عام طور پر قرارداد پاکستان کے نام سے موسوم ہے ۔ ۲۵؎ قرارداد پاکستان کی منظور کے بعد ایک دن قائد اعظم نے اپنے سیکرٹری سید مطلوب الحسن (۱۹۱۵ئ۔۱۹۸۴ئ) سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ آج اقبال ہم میں موجود نہیں لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ جان کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے بالکل ایسے ہی کیا جس کی وہ ہم سے خواہش کرتے تھے‘‘۔ ۲۶؎۔ ۲۵؎ قائد اعظم محمد علی جناح ۔ پیش لفظ۔ اقبال کے خطوط جناح کے نام ۲۶؎ سید مطلوب الحسن۔ محمد علی جناح ایک سیاسی مطالعہ انگریزی کراچی ۱۹۷۵ئ۔ ص ۲۳۱