Actions

Difference between revisions of "Iqbal ke Khatoot Jinnah ke naam"

From IQBAL

(Created page with "<div dir="rtl"> ==اقبال کے خطوط جناح کے نام== '' پیش لفظ'' یہ کتابچہ ان خطو ط پر مشتمل ہے جو اسلا م کے قومی ش...")
 
(Blanked the page)
(Tag: Blanking)
 
Line 1: Line 1:
<div dir="rtl">
 
==اقبال کے خطوط جناح کے نام==
 
  
'' پیش لفظ''
 
 
یہ کتابچہ ان خطو ط پر مشتمل ہے جو اسلا م کے قومی شاعر فلسفی اور عارف ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم نے میرے نام مئی ۱۹۳۶ء سے نومبر ۱۹۳۷ء کے درمیانی عرصہ میں اپنی وفات سے کچھ ماہ پہلے تحریر کیے تھے۔ یہ دور جوجون ۱۹۳۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے قیام اوراکتوبر ۱۹۳۷ء میں لکھنو کے تاریخی اجلاس کے دوران تک محیط ہے مسلم ہندوستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ 
 
اگر مرکزی پارلیمانی بورڈ نے اپنی صوبائی شاخوں کے ہمراہ مسلم لیگ کی طرف سے یہ پہلی عظیم کوشش کی کہ مسلم رائے عامہ قانون ہند ۱۹۳۵ء کے تحت صوبائی مجلس قانون ساز کے لیے لیگ کے ٹکٹ پر آئندہ انتخابات میں حصہ لیا جائے تو لکھنو اجلاس اس امر کی طرف نشاندہی کا باعث بنا کہ پہلے مرحلہ میںمسلم لیگ کی عوامی سطح پر تنظیم نو ہونی چاہیے۔ اور یہ کہ مسلم لیگ ہی ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے ان دونوں مقاصد کے حصول میں میں اپنے دوستوں جن میں ڈاکٹر سر محمد اقبال بھی شامل ہیں کے انمول تعاون حب الوطنی اور بے غرض مساعی کی بدولت کامیاب ہو سکا۔ اس مختصر عرصہ میں مسلم لیگ کافی قوت پکڑ گئی ۔ ہر صوبے میں جہاں مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ قائم ہوا اور مسلم لیگ کی شاخیں قائم ہوئیں۔ ہم نے ساٹھ سے ستر فی صد نشستیں حاصل کیں جن پر مسلم لیگی امیدواروں نے انتخاب لڑا تھا۔ تقریباً ہر صوبے میں مدراس کے دور دراز کونے سے لے کر شمال مغربی سرحدی صوبے تک مسلم لیگ کی سینکڑوں ضلعی اور ابتدائی شاخیں قائم ہو گئیں۔
 
کانگرس نے مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے اور مسلم لیگ کو مرغوب کرنے کے لیے جو نام نہاد مسلم رابطہ عوام تحریک چلائی تھی مسلم لیگ نے اس پر ضرب کاری لگائی۔ مسلم لیگ متعدد ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوئی اور ان لوگوں کی فتنہ پردازیوں اور سازشوں کو ختم کر دیا جو یہ تاثر دینے کی توقع رکھتے تھے کہ مسلم لیگ کو مسلمان عوام کی حمایت حاصل نہیں۔
 
لکھنو اجلاس سے اٹھارہ ماہ پہلے مسلم لیگ ایک اعلیٰ اور ترقی پذیر پروگرام کی حامل جماعت کی حیثیت سے مسلمانوں کو منظم کرنے پر کامیاب ہوئی اوروہ صوبے بھی اس کے زیر اثر آ گئے جن تک وقت کی قلت یا لیگ پارلیمانی بورڈوں کی ناکافی سرگرمیوں کے باعث بہتر طور پر رسائی نہ ہو سکی تھی لکھنو اجلاس نے اس مقبولیت کی صریح شہادت فراہم کر کے دی جو مسلم لیگ کو مسلمانوں کی تمام جماعتوں اور گروہوں میں حاصل تھی۔
 
یہ مسلم لیگ کی نہایت شاندار کامیابی تھی کہ اس کی قیادت کو مسلم اکثریتی اور اقلیتی صوبوں نے قبول کر لیا اور اسے اس کامیابی تک پہنچانے میں ڈاکٹر سر محمد اقبال نے بڑا کردار ادا کیا اگرچہ عوام کو اس وقت اس کا علم نہ ہو سکا۔ سکندر جناح معاہدہ کے بارے میں انکے کچھ اپنے خدشات تھے۔ وہ اس پر عمل درآمد اور اس کو نمایاں نتائج کو جلد از جلد دیکھنا چاہتے تھے تکہ اس کے متعلق عوام کے شکوک و شبہات دور ہوسکیں۔ لیکن افسوس کہ وہ یہ دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہے کہ پنجاب نے قابل ذکر ترقی کر لی ہے اور اب ا س میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان ثابت قدمی کے ساتھ مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔
 
اس مختصر تاریخی پس منظر کو ذہن میں رکھ کر ان خطوط کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا تاہم مجھے اس بات کا بڑا افسوس ہے کہ اقبال کے خطوط کے جواب میں میرے خطوط دستیاب نہ ہو سکے۔ مذکورہ عرصہ کے دوران میں تن تنہا بغیر کسی ذاتی عملہ کی مدد سے کام کرتا تھا اس لیے میں ان خطوط کی نقول اپنے پاس نہ رکھ سکا جو میں دوسروں کو ارسال کرتا تھا۔ میں نے لاہور میں اقبال کے ترکے کے نگرانوں سے دریافت کرایا تو انہوںنے مجھے اطلاع دی کہ میرے خطوط دستیاب نہیں ہو سکے۔ چنانچہ اب میرے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں ہے کہ ان خطوط کو اپنے جوابات کے بغیر ہی شائع کرائوں کیونکہ میرے نزدیک یہ خطوط زبردست تاریخی اہمیت کے حامل ہیں بالخصوص وہ خطوط جن میں مسلم ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ان کے خیالات کا واضح اور غیر مبہم اظہار ہے۔ ان کے خیالات پورے طور پر میرے خیالات سے ہم آہنگ تھے اور بالآخر میں ہندوستان کے دستوری مسائل کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد انہی نتائج پر پہنچا اور کچھ عرصہ بعد یہی خیالات ہندوستان کے مسلمانوں کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے جس کا اظہار آل انڈیا مسلم لیگ کی ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی منظور کردہ قرارداد لاہور ہے۔ جو عام طور پر قرارداد پاکستان کے نام سے موسوم ہے۔
 
ایم اے جناح
 
۲۷ مارچ ۱۹۴۳ء
 
لاہور ۲۳ مئی ۱۹۳۶ء
 
محترم جناح صاحب
 
ابھی ابھی آپ کا خط موصول ہوا جس کے لیے بے حد شکر گزار ہوں۔ مجھے یہ جان کرمسرت ہوئی کہ آپ کاکام آگے بڑھ رہا ہے۔ مجھے پوری توقع ہے کہ پنجاب کی جماعتیں بالخصوص احرار اور اتحاد ملت ۱؎۲؎ تھوڑی بہت نزاع و کشمکش کے بعد آخیر کار آپ کے ساتھ شریک ہو جائیں گی۔ اتحاد ملت کے ایک سرگر م اور فعال رکن نے چند روز ہوئے مجھے یہی بتایا ہے کہ اگرچہ مولانا ظفرعلی خان ۳؎ کے رویے کے بارے میں خود اتحاد ملت والے یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ تاہم ابھی کافی وقت ہے۔ ہمیں جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ رائے دہندگان اسمبلی میں اپنی نمائندگی اتحاد ملت والوں کے سپرد کرنے کے متعلق کیا خیال کرتے ہیں۔
 
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔ ملاقات کا آرزو مند۔
 
آپ کا مخلص
 
محمد اقبال
 
۱؎  مجلس احرار اسلام:  پنجاب ککی ایک سیاسی اور مذہبی جماعت جس کی داغ بیل پنجاب خلافت کمیٹی کے اراکین نے ۱۹۲۹ ء میں رکھی۔ اس جماعت کی باقاعدہ تشکیل جولائی ۱۹۳۱ء میں ہوئی۔ مجلس احرار اسلام کے بانی اراکین میںمولانا سید عطار اللہ شاہ بخاری(۱۸۹۱ئ۔ ۱۹۶۱ئ) چودھری افضل حق (۱۸۹۵ئ۔ ۱۹۴۲ئ) مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی (۱۸۹۲ء ۱۹۵۶ئ) اور مولانا مظہر علی اظہر (۱۸۹۵ء ۱۹۷۴ئ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ تحریک آزدی میں مجلس احرار نے کانگرس کا ساتھ دیا اور حصول پاکستا ن میں مسلم لیگ کی مخالفت کی۔ انگریز دشمنی اور رد قادیانیت (تحریک ختم نبوت) کے سلسلہ میں مجلس احرار کی خدمات نمایاں ہیں۔
 
۲؎ مجلس اتحاد ملت :  یہ بھی پنجاب کی ایک سیاسی اور مذہبی جماعت تھی جو نیلی پوش کے ام سے زیادہ مشہور ہوئی۔ ۱۹۳۶ء میں اس کا قیام عمل میںآی ااور مولانا ظفر علی خان اس کے صدر منتخب ہوئے۔ یہ جماعت زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکی۔
 
۳؎  مولانا ظفر علی خان۔ (۱۸۷۳ئ۔ ۱۹۵۶ئ) تحریک آزادی کے ایک جانباز سپاہی اور ہمہ صفت شخصیت تھے۔ ظفر علی خان ایک اچھے شاعر بلند پایہ ادیب اور مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شعلہ نوا خطیب بھی تھے لیکن آپ کی شہرت ایک بیباک صحافی کی حیثیت سے زیادہ ہے ۔ آپ نے اخبار زمیندار کے ذریعے مسلمانوں ہند میں سیاسی بیدار ی پیدا کی اور جدوجہد آزادی میں نمایاں خدمات سر انجام دیں۔ بقول حضرت علامہ اقبال مصطفی کمال کی تلوارنے ترکوں کو جگانے کے لیے جو کام کیا ظفر علی خان کے قلم نے وہی کام ہندوستان کے مسلمانوں کو جگانے کے لیے کیا۔ خود مولانا نے کہا ہے:
 
قلم سے کام تیغ کا اگر کبھی لیا نہ ہو
 
تو مجھ سے سیکھ لے یہ فن اور اس میں بے مثال بن
 
لاہور
 
۹؍جون ۱۹۳۶ء
 
(بصیغہ راز)
 
محترم جناح صاحب
 
میں اپنا مسودہ ارسال خدمت کر رہاہوں کل کے ’’ایسٹرن ٹائمز‘‘ ۱؎ کا ایک تراشہ بھی ہمراہ ہے ۔ یہ گورداسپور کے ایک قابل وکیل کا خط ہے۔
 
مجھے امید ہے کہ بورڈ ۲؎ کی طرف سے جاری شدہ بیان میں تمام سکیم ۳؎ کی پوری تفصیل ہو گی۔ اور سکی پر اب تک کیے گئے اعتراضات کا بھی شافعی جواب ہو گا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ حیثیت کا ہندوئوں اور حکومت دونوںسے متعلق اس میں برملا اور واضح ہونا چاہیے۔ اسو بیان میں یہ انتباہ بھی ہو کہ اگر ہندوستان کے مسلمانوں نے موجودہ سکیم کو اختیار نہ کیا تو نہ صرف یہ کہ جو کچھ گزشتہ پندرہ برسوں میں انہوںنے حاصل کیا ہے ضائع کر بیٹھیں گے بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے قومی شیرازے کو پارہ پارہ کر کے اپنے نقصان کا باعث ہو ں گے۔
 
آپ کا
 
محمد اقبال
 
مکرر آنکہ:
 
میں نہایت ممنون ہوں گا کہ اگر اخبارات کو روانہ کرنے سے قبل آپ یہ بیان مجھے بھی ارسال کر دیں۔
 
دوسری بات جس کا ذکر ا س بیان میں ہونا چاہیے یہ ہے:
 
۱؎  ایسٹرن ٹائمز:  انگریزی اخبار جو لاہور سے شائع ہوتا تھا ۔ اس اخبار کا آغاز ۱۰ ستمبر ۱۹۳۱ کو ہوا اور اس کو یونینسٹ پارٹی کی مالی امداد حاصل تھی اوریہ اس پارٹی کے پروپیگنڈے کے لیے وقف تھا۔
 
۲؎  بورڈ:  آل انڈیا مسلم لیگ کا مرکزی پارلیمانی بورڈ جس کے اراکین کے ناموں کا اعلان قائد اعظم محمد علی جناح نے ۲۱ مئی ۱۹۳۶ء کو کیا بورڈ کے اراکین کی تعداد ۵۶ تھی۔
 
۳؎  سکیم:  اس خط میں سکیم اور بیان کا لفظ بار بار آیا ہے۔ اس سے مراد آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کا مینی فیسٹو (منشور ) ہے جو آئندہ مسلم لیگ کی سرگرمیوں کا سنگ بنیاد بننے والاہے۔
 
۱۔  مرکزی اسمبلی کے لیے بالواسطہ طریق انتخاب نے یہ قطعی طو رپر ضروری کر دیا ہے کہ جو اراکین صوبائی اسمبلیوں کے لیے منتخب کیے جائیں وہ ایک کل ہند مسلم پالیسی اور پروگرام کے پابند ہوں تاکہ وہ مرکزی اسمبلی میں ایسے مسلمان نمائندے منتخب کری ںجو اس بات کا عہد کریں کہ مرکزی اسمبلی میں مسلم ہندوستان ان کے مکصوص مرکزی مسائل کی تائید و حمایت کریں گے۔ جو ہندوستان کی دوسری بڑی قوم کی حیثیت سے مسلمانوں سے متعلق ہوں۔ جو لوگ اس وقت صوبائی پالیسی اور پروگرام کے حامی ہیں وہی لوگ مرکزی اسمبلی کے لیے بالواسطہ طریق انتخاب کو دستور میںشامل کروانے کے ذمہ دار ہیں۔ بلاشبہ ایک غیر ملکی حکومت کا مفاد اسی میں ہے اب جب کہ قوم ا س مصیبت سے بالواسطہ انتخاب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اس نے انتخاب کے لیے ایک کل ہند سکیم (یعنی مسلم لیگ کی سکیم) اختیار کر لی ہے جس کی پابندی تمام صوبائی امیدوار کریں گے تو وہی لوگ پھر غیر ملکی حکومت کے اشارے پر مصروف عمل ہیں کہ قوم کو اپنی شیرازہ بندی کی کوششوں میں ناکام کریں۔
 
۲۔  اسلامی اوقاف جیسا کہ شہید گنج ۴؎  سے ظاہر ہوا اور اسلامی ثقافت زبان ‘ مساجداور قانون شریعت سے متعلق مسائل پر بھی بیان میں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
 
۴ ؎  شہید گنج:  لاہور ریلوے سٹیشن سے دہلی دروازے کی طرف جاتے ہوئے پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کے نزدیک ایک بہت قدیم مسجد ہے جو شاہجہان کے عہد میں تعمیر ہوئی تھی۔ مسجد کے قریب ہی سکھوں کی ایک یادگار سمادھی بھی تھی یہ جگہ شہید گنج کے نام سے موسوم ہے۔ اپنے دور حکومت میں سکھوںنے مسجد پر قبضہ کر لیا۔ برطانوی دور حکومت میں مسجد کو واگزار کرانے کے لیے کئی کوششیں کی گئیں جو کامیاب نہ ہو سکیں۔
 
جون ۱۹۵ء میں مسجد شہید گنج کے معاملہ میں مسلمانوں اور سکھوں میں سخت کشیدگی پیدا ہو گئی۔ حکومت نے حالات کوقابومیں رکھنے کے لیے مسجد کے چاروں طرف سے مسلح فوجی او رپولیس کے سپاہی متعین کر دیے اس کے باوجو دسکھوں نے ۴ اور ۵ جولائی کی درمیانی شب کو یکایک مسجد کو گرانا شروع کر دیا جب مسلمانوں کو معلوم ہوا تو وہ مسجد کی حفاظت کے لیے دوڑے لیکن دوسری طرف سے فوج نے بار بار گولی چلائی اور کئی مسلمان شہید ہو گئے۔۔ اس طرح ایک تحریک شروع ہو گئی۔ مسلمانوں نے شاہی مسجد کو اپنا صدر مقام بنا کر سول نافرمانی شروع کر دی۔ حکومت نے مسلمان رہنمائوں کو گرفتار کر لیا لیکن تحریک جاری رہی۔
 
فروری ۱۹۳۶ء کو قائد اعظم مسجد شہید گنج کے تنازعہ کے حل کے لیے لاہور آئے ۔ آپ نے گورنر سے ملاقات کر کے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا بندوبست کیا اور سکھ رہنمائوں سے ملاقات کر کے انہیں باہمی سمجھوتے پر آمادہ کیا۔
 
مسجد کو واگزار کرانے کے لیے شہید گنج لیگل ڈیفنس کمیٹی بنائی گئی جس نے ڈسٹرکٹ کورٹ میں دعویٰ دائر کیا کہ مسجد ہر حالت میں مسجد ہے اور مسلمانوں کویہاں نماز پڑھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ڈسٹرکٹ کورٹ نے یہ مقدمہ خارج کر دیا پھر اس کی اپیل ہائی کورٹ میں کی گئی۔ ۲۶ جنوری ۱۹۳۸ء کو ہائی کورٹ نے بھی اپیل خارج کر دی۔
 
اکتوبر ۱۹۳۷ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنو میں مسجد شہید گنج کا مسئلہ زیر غور آیا اور اس کے متعلق ایک قرارداد منظور کی گئی۔ اس کے علاوہ ۳۰ جنوری ۱۹۳۸ء کو مسلم لیگ کا ایک اجلاس دہلی میں منعقد ہوا۔ جس میں اعلان کیا گیا کہ مسجد شہید گنج کی بازیابی کا مطالبہ ہندوستان کے مسلمانوں کا متفقہ مطالبہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ ہوا کہ یکم فروری کو پورے ہندوستان میں یوم شہید گنج منایا جائے۔
 
لاہور
 
۲۵ جون ۱۹۳۶ء
 
(بصیغہ راز)
 
محترم جناح صاحب
 
سر سکندر حیات دو ایک رو ز ہوئے لاہور سے روانہ ہو چکے ہیں۔ میر ے خیال میں وہ بمبئی میں آپ سے مل کر بعض اہم امور پر گفتگو کریں گے۔ کل شام دولتانہ ۲؎ مجھ سے ملنے آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یونینسٹ پارٹی ۳؎ کے مسلمان اراکین مندرجہ ذیل اعلان کرنے کے لیے تیار ہیں۔
 
کہ ان تمام امور میں جو مسلمانوں سے بحیثیت ایک کل ہند اقلیب سے متعلق ہیں وہ مسلم لیگ کے فیصلے کے پابند ہوں گے اور صوبائی اسمبلی میں کسی غیر مسلم جماعت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کریں گے۔
 
بشرطیکہ (صوبائی) مسلم لیگ بھی حسب ذیل اعلان کرے کہ:
 
۱؎  سر سکندر حیات :  (۱۸۹۲ء ۔ ۱۹۴۲ئ) قیام پاکستان سے پہلے پنجاب کے ارباب سیاست میں سے ایک اہم شخصیت تھے ان کی سیاسی زندگی کا آغاز ۱۹۲۴ء سے ہوا جب وہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ۱۹۲۹ء میں حکومت پنجاب کے ریونیو ممبر بنے پھر ریزرو بنک کے گورنر مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۶ء میں سر فضل حسین کی وفات کے بعد یونینسٹ پارٹی کے لیڈر چنے گئے۔ قانون ہند ۱۹۳۵ء کے تحت ۱۹۳۷ء میں پنجاب کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اسی سال مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنو میں شریک ہوئے اور قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ معاہدہ کیا کہ یونینسٹ پارٹی کے مسلمان اراکین مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں جو جناح سکندرمعاہدہ کے نام سے مشہور ہے۔
 
۲؎  میاں احمد یار خان دولتانہ:  (۱۸۹۶ء ۔ ۱۹۴۰ئ) پنجاب کی ایک اہم شخصیت اوریونینسٹ پارٹی کے روح رواں تھے اور اس دورجدید میں سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اپریل ۱۹۳۷ء میں پنجاب اسمبلی کے چیف پارلیمانی سیکرٹری مقرر ہوئے حضرت علامہ اقبال کے بڑے عقیدت مند تھے۔ آپ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور معروف بزرگ سیاستدان میاں ممتاز احمد خاں دولتانہ (۱۹۱۶ئ۔ ۱۹۹۵ئ) کے والد بزرگور تھے۔
 
۳؎  پنجاب یونینسٹ پارٹی:  قیام پاکستان سے قبل پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت جس کی داغ بیل سر فضل حسین (۱۸۷۷ء ۔ ۱۹۳۶ئ) نے ۱۹۲۴ء میں رکھی۔ اس پارٹی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پنجاب کی حکومت ہندوئوں اور مسلمانوں کے اتحاد و اشتراک سے چلائی جائے تاکہ اصلاحات کے نفاذ سے اچھی طرح فائدہ اٹھایا جائے ۔ ۱۹۳۷ء کے انتخابات میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں یونیسٹ پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں او ر سر سکندر حیات کی سرکردگی میں وزارت تشکیل دی۔
 
وہ اراکین اسمبلی جو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر صوبائی اسمبلی میں آئیں گے وہ صر ف اس جماعت یا فریق کے ساتھ تعاون کریںگے جس میںمسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی۴؎۔
 
ازراہ کرم اپنی اولین فرصٹ میں مطلع فرمائیے کہ اس تجویز کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ سر سکندر حیات سے جو گفتگو ہو اس کے نتیجہ سے بھی مطلع فرمائیے۔ اگر آپ انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ان کاہمارے ساتھ شامل ہو جانا کچھ بعید نہیں۔
 
امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔
 
آپ کا مخلص
 
اقبال
 
۴؎  انہی خطوط پر بعد میں یعنی ۱۹۳۷ء میں یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان جناح سکندر معاہدہ ہوا۔
 
میو روڈ لاہور
 
۲۳ اگست ۱۹۳۶ء
 
محترم جناح صاحب
 
امید ہے کہ میرا اس سے پہلے کا خط آپ کو مل گیا ہو گا۔ پنجاب پارلیمانی بورڈ اور یونینسٹ پارٹی کے مابین مفاہمت کی کچھ گفتگو ہو رہی ہے اس قسم کی مفاہمت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور اس کے لیے آپ کی کیا شرائط تجویز کرتے ہیں؟ میں نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ آپ نے بنگالی پرجا پارٹی ۱؎ اور پارلیمانی بورڈ میں مصالحت کرا دی ہے۔ اس کی شرائط و ضوابط سے مجھے مطلع فرمائیے۔ چونکہ پرجا پارٹی بھی یونینسٹ پارٹی کی طرح غیر فرقہ وارانہ ہے۔ اس لیے بنگال میں آپ کی مصالحت آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
 
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔
 
آپ کا مخلص
 
اقبال
 
۱؎  کرشک پرجا پارٹی:  بنگال کی ایک غیر فرقہ وارانہ جماعت تھی۔ ۱۹۲۴ء میں ڈھاکہ میں اس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مولوی ابو القاسم فضل الحق (۱۸۷۳ئ۔ ۱۹۶۲ئ) اس کے سربراہ تھے۔ اس پارٹی کا مقصد بنگال کے کسانوں کی حالت کو بہتر بنانا تھا۔
 
لاہور
 
۸ دسمبر ۱۹۳۶ء
 
محترم جناح صاحب
 
غلام رسول ۱؎ نے مجھے بتایا ہے کہ اس نے آپ کو بورڈ کے امور کے بارے میں ایک تفصیلی خط لکھا ہے میں ان کے اس بیان سے بالکل متفق ہوں کہ انتخابات سے کم از کم پندرہ روزپہلے آپ کی اس صوبے میں موجودگی نہایت ضروری ہے۔ آپ اس صوبے کے لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ عام طور پر جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ اگر آپ مولانا شوکت علی ۲؎ اور ایم کفایت اللہ ۳؎ انتخابات کے دنوں میں ان سے خطاب کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ سب آپ کی اور آپ کے امیدواروں کی حمایت کریں گے۔ وگرنہ وہ کچھ اور کر بیٹھیں گے۔ اس لیے میں آپ سے استدعا کرتا ہوں کہ آپ دسمبر ۱۹۳۶ء کے آخیر یا جنوری ۱۹۳۷ء کے آغاز میں ہمارے ہاں تشریف لائیں تاکہ ہماری تحریک کے خلاف پیدا کیے جانے والے رد عمل کی قوتوں کو توڑنے کی کوشش کی جائے۔ اگر آپ تشریف نہ لا سکے تو مجھے خدشہ ہے کہ آپ آنے والی اسمبلی میں چار سے زائد حامیوں کو نہ پا سکیں گے۔ احترامات کے ساتھ۔
 
آپ کا مخلص
 
محمد اقبال (بار ایٹ لائ)
 
صدر
 
پنجاب صوبائی مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ
 
۱؎  غلام رسول خان:  (وفات ۱۹۴۹ئ) علامہ اقبال کے عقیدت مندوں میں سے تھے ایم اے او کالج علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے۔ ۱۹۱۴ء میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ کچھ عرصہ لاہور میں وکالت کر کے جنوبی افریقہ چلے گئے تھے اور ۱۹۳۰ء میں واپس آ کر ملکی اور ملی کاموں میں حصہ لینے لگے۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کے فعا ل رکن تھے۔ ۱۹۳۳ء میں جب علامہ اقبال افغانستان کے بادشاہ کی دعوت پر وہاں گئے تو آپ ان کے سیکرٹری کی حیثیت سے ساتھ تھے۔ ۱۹۳۶ء میں پنجاب صوبائی مسلم لیگ کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ آپ نے پنجاب میں مسلم لیگ کی ترویج و ترقی کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔
 
۲؎  مولانا شوکت علی :  (۱۸۷۳ئ۔ ۱۹۳۸ئ) مولانا محمد علی جوہر (۱۸۷۸ء ۔ ۱۹۳۱ئ) کے بڑے بھائی تھے۔ تاریخ میں دونوں بھائی علی برادران کے نام سے مشہور ہوئے۔ ۱۸۹۵ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا ۔ کچھ عرصہ یو پی حکومت میں ملازمت کی۔ علی گڑھ کالج کے بورڈ کے ٹرسٹی ار کالج کی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے فعال رکن تھے۔ ۱۴۔۱۹۱۳ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کی خاطر چندہ اکٹھا کرنے کے لیے سر آغاخان (۱۸۷۷ء ۔ ۱۹۵۷ئ) کی معیت میں ان کے سیکرٹری کی حیثیت سے ملک کا دورہ کیا۔ انجمن خدام کعبہ کے بانی تھے۔ مسلم لیگ کی تنظیم نو کے سلسلہ میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ نمایاں خدمات سر انجام دیں۔ مسلم لیگ کی مرکزی پارلیمانی بورڈ کے ممبر بھی تھے۔ ۱۹۳۴ء سے ۱۹۳۸ء تک مرکزی اسمبلی کے ممبر رہے۔
 
۳؎  مفتی کفایت اللہ:  (۱۸۷۵ئ۔ ۱۹۵۲ئ) ابتدائی تعلیم شاہجہان پور اور مرادآباد میں حاصل کی۔ اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی۔ مدرسہ امینیہ دہلی کے صدر مدرس رہے۔ ملک کی سیاسی تحریکوں میں نمایاں حصہ لیا۔ جمعیت العلمائے ہند کے بانی صدر تھے۔ تعلیم الاسلام آپ کی سب سے مشہور تصنیف ہے ۔ جو آ پ نے بچوں کے لیے لکھی یہ کتاب لاکھوں کی تعداد میں چھپ چکی ہے۔
 
لاہور
 
۲۰ مارچ ۱۹۳۷ء
 
(بصیغہ راز)
 
محترم جناح صاحب
 
میرا خیال ہے کہ آ پ نے پندت جواہر لال نہرو کا وہ خطبہ ۱؎ ۲؎ جو انہوںنے آل انڈیا نیشنل کنونشن ۳؎ میں دیا ہے پڑھا ہو گا اور اس کے بین السطور جو پالیسی کارفرما ہے ا س کو آ پ نے بخوبی محسوس کر لیا ہوگا۔ جہاں تک ا س کا تعلق ہے ہندوستان کے مسلمانوں سے ہے میں سمجھتا ہوں کہ آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ نئے دستور ۴؎ نے ہندوستا ن کے مسلمانوں کو کم از کم اس بات کا ایک نادر موقعہ دیا ہے کہ وہ ہندوستان اورمسلم ایشیاء کی آئندہ سیاسی ترقی کے پیش نظر اپنی قومی تنظیم کر سکیں گے۔ اگرچہ ہم ملک کی دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں تاہم ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیںکرنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بہت حد تک ہندوستان کے مسلمانوں کی مکمل تنظیم پر ہے۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ آل انڈیا نیشنل کنونشن کو ایک موثر جواب دیا جائے۔ آپ جلد از جلد دہلی میں آل انڈیا مسلم کنونشن ۵؎ منعقد کریں جس میں شرکت کے لیے نئی صوبائی اسملیوں کے اراکین کے علاوہ دوسرے مقتدر مسلم رہنمائوں کو بھی مدعو کریں۔
 
۱؎  پنڈت جواہر لال نہرو : (۱۸۸۹ء ۔ ۱۹۶۴ئ) پنڈت موتی لال نہرو (۱۸۶۱ئ۔ ۱۹۳۱ئ) کے فرزند ارجمند تھے اور انڈین نیشنل کانگرس کے ممتاز رہنما تھے۔ انگلستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ملکی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ ۱۹۱۸ء میں ہوم ررول لیگ الہ آباد کے سیکرٹری اور کانگرس کمیٹی کے ممبر مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۹ء میں کانگرس کے اجلاس منعقدہ لاہور کی صدارت کی اور اس کے بعد کانگرس کے صدر ہوئے۔ آزادی کے بعد بھارت کے وزیر اعظم بنے اور اپنی وفات تک وزارت عظمیٰ پر فائز رہے۔
 
۲؎  خطبہ متذکرہ خطبہ میںپنڈت جواہر لال نہرو نے مسلمانوں کے جداگانہ سیاسی وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا ک برصغیر کا حسل طلب مسئلہ صرف اقتصادی مسئلہ ہے نہرو کے ان نکات پر علامہ اقبال قائد اعظم محمد علی جناح کی خصوصی توجہ چاہتے تھے۔
 
۳۔  آل انڈیا نیشنل کنونشن:  ۳۷أ۱۹۳۸ء کے انتخابات میں کانگرس کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تو کانگرس کے صدت پنڈت جواہر لال نہرو نے ۱۹ مارچ ۱۹۳۷ء کو دہلی میں اال انڈیا نیشنل کنونشن طلب کی۔ جس میں ان کے تمام اراکین اسمبلی نے شرکت کی جو کانگرس کے ٹکٹ پر مختلف صوبائی اسمبلیوں کے لیے منتخب ہوئے تھے۔
 
۴؎  نئے دستور سے مراد قانون ۱۹۳۵ ء ہے ۔
 
۵؎  آل انڈیا مسلم کنونشن: علامہ اقبال خواہش مند تھے کہ آل انڈیا نیشنل کنونشن کا جواب آل انڈیامسلم کنونشن کے ذریعے دیا جائے۔ مگر ایسی کنونشن کا انعقاد نہ ہو سکا۔ البتہ اپریل ۱۹۴۶ء میں مسلم نمائندگان کا ایک کنونشن ہوا
 
اس کنونشن میں پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ بیان دیں کہ سیاسی مطمع نظر کی حیثیت سے مسلمانان ہند ملک میں جداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اندرون اور بیرون ہند کی دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک مین صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیںہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندوسان کے مسلمانوں کے لیے اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے۔ اور کسی صورت سے بھی یہ اقتصادی مسئلہ سے کم اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر آپ ایسی کنونشن منعقد کر سکیں تو پھر ایسے مسلم اراکین اسمبلی کی حیثیتوں کا امتحان ہو جائے گا جنہوںنے مسلمانان ہند کی امنگوں اور مقاصد کے خلاف جماعتیں قائم کر رکھی ہیں۔ مزید برآں اس سے ہندوئوں پر یہ عیاں ہو جائے گا کہ کوئی سیاسی حربہ خواہ کیسا ہی عیاران کیوں نہ ہو پھر بھی مسلمانان ہند اپنے ثقافتی وجود کو کسی طور نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ میں چند روز میں دہلی آ رہا ہوں۔ اس اہم مسئلہ پر آپ سے گفتگو ہو گی۔ میرا قیام افغانی سفارت خانہ ۶؎ میں ہو گا۔ اگر آپ کو کچھ فرصت ہو تو وہیں ہماری ملاقات ہونی چاہیے۔ ازراہ کرم خط کے جواب میں چند سطور جلد از جلد تحریر فرمائیے۔
 
آپ کا مخلص
 
محمد اقبال
 
بار ایٹ لاء
 
مکرر آنکہ: معاف فرمائیے کہ میں نے یہ خط آشوب چشم کی وجہ سے ایک دوست سے لکھوایا ہے۔
 
جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب نمائندوں نے شرکت کی۔ اور انہوںنے حصول پاکستان کے لیے تجدید عزم کیا۔
 
۶؎  افغانی سفارت خانہ:  ہیلی روڈ نئی دہلی میں ان دنوں سردار صلاح الدین سلجوقی (۱۸۹۷ء ۱۹۷۰ئ) افغان قونصل جنرل تھے  وہ ایک اعلیٰ درجے کے سفارت کار ہونے کے علاوہ ایک عظیم شاعر اور ادیب بھی تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف تھے فارسی اور عربی ادبیات پر پورا عبور رکھتے تھے۔ مولانا روم (۱۲۰۷ئ۔ ۱۲۷۲ئ) اور مرزا بیدل (۱۶۴۱ئ۔ ۱۷۲۰ئ) کے کلام کے دلدادہ تھے۔ علامہ اقبال کے دوست تھے اور اسی لیے علامہ اقبال نے ان کے ہاں قیام کیا کرتے تھے۔
 
لاہور
 
۲۲ اپریل ۱۹۳۷ء
 
محترم جناح صاحب
 
دو ہفتے ہوئے میں نے آپ کو خط لکھا تھا کہ معلوم نہیں وہ آپ کو ملا یا نہیں۔ میں نے وہ خط آپ کو دہلی کے پتہ پر لکھا تھا اور پھر جب میںدہلی گیا تو معلوم ہوا کہ آپ وہاں سے پہلے ہی رخصت ہو چکے ہیں۔ میں نے اس خط میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہمیں فوراً ایک آل انڈیا مسلم کنونشن کسی بھی مقامپر مثلاً دہلی میں منعقد کر کے حکومت اور ہندوئوں کو ایک بار پھر مسلمانان ہند کی پالیسی سے آگاہ کر دینا چاہیے۔
 
چونکہ صورت حال نازک ہوتی جا رہی ہے اورپنجاب کے مسلمانوں کا رجحان بعض ایسے وجوہ کی بنا پر جن کی تفصیل بتانا اس وقت غیر ضروری ہے کانگرس ۲؎ کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس معاملہ پر فوری غور فرمای کر فیصلہ کریں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس اگست تک ملتوی ہو چکا ہے۔ لیکن حالات کا تقاضا  ہے کہ فوری طور پر مسلم پالیسی کا اعلان مکرر ہو۔ اگر کنونشن کے انعقاد سے پہلے مقتدر مسلمان لیڈروں کا ایک دورہ بھی ہو جائے تو کنونشن یقینا بہت کامیاب رہے گا۔ براہ نوازش اس خط کا جواب اپنی اولین فرصت فرصت میں عنایت فرمائیے۔
 
آپ کا مخلص
 
محمد اقبال
 
بارایٹ لاء
 
۱؎  علامہ اقبال ان دنوں بیمار تھے اور اپنے معالج حکیم عبدالوہاب انصاری نابینا صاحب (۱۸۶۸ء ۔ ۱۹۴۱ئ) کو اپنی نبض دکھانے دہلی تشریف لے گئے تھے۔
 
۲؎  انڈین نیشنل کانگرس:  ہندوستان کی قدیم اور سب سے بڑی سیاسی جماعت جس کی بنیاد ۱۸۸۵ء میں ایک انگریز اے او ہیوم (۱۸۲۹ء ۔ ۱۹۱۲ئ) نے رکھی۔ ہندو کثیر تعدادمیں اس میں شریک ہوئے۔ جبکہ مسلمانوں کی بہت ہی کم تعداد کانگرس کی طرف متوجہ ہوئی۔ کانگرس میں ہندو غالب رہے۔ اور ہندوئوں کا ہی مفاد اس کے پیش نظر رہا۔ جس کی بنا پر مسلمانوں نے اپنی جداگانہ تنظیم مسلم لیگ قائم کی۔
 
لاہور
 
۱۰مئی ۱۹۳۷ء
 
محتر م جناح صاحب
 
آپ کے خط کا شکریہ جو مجھے دریں اثناء موصول ہوا۔ مجھے آپ کو یہ بتانے میں بہت خوشی محسوس ہوتی ہے کہ پنجاب میں لیگ کی نسبت ہمدردا نہ جذبا ت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ کہ یونینسٹوں سمیت پنجاب کے مسلمان آپ کی پوری پشت پناہ کریں گے۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا  آپ کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ آپ شمالی ہند کا ایک دورہ کریں اور میرٹھ ۱؎ مں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس سے پہلے ہر  صوبے کے اہم شہروں میں جائیں۔ میرا خیال ہے یکہ مسلم لیگ کے آئین میں مناسب تبدیلیاں کرنا ضروری ہیں تاکہ مسلم لیگ کو عوام الناس کے قریب تر لایا جائے جنہوںنے اب تک مسلمانوں کے بالائی متوسط طبقے کی سیاسی سرگرمیوںمیں کوئی دلچسپی نہیںلی۔ متوسط مسلمان طبقے کو شکایت ہے کہ ہمارے لیڈروں کو صرف اپنے عہدوں سے دلچسپی ہے۔ اور یہ کہ حکومت کے مختلف محکموں میں آسامیاں یونیسٹوں کے رشتہ داروں یا دوستوں کے لیے مخصوص کر دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا متوسط طبقہ سیاسی معاملات میں کم دلچسپی لیتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ان کی شکایت بجا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ لیگ کے دستور میں چند مناسب ترمیمات کے بارے میں ضرور غور کریں گے جس سے عوام الناس میں لیگ اور اس کی سرگرمیوں کے ضمن میں بہتر توقعات پیدا ہوں گی۔
 
براہ کرم اپنے جواب سے سرفراز فرمائیں!
 
آپ کا مخلص
 
محمد اقبال
 
۱؎  ۱۹۳۷ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس میرٹھ میںنہیںہوا تھا۔ بلکہ ۱۵ تا ۱۸ اکتوبر کو لکھنو میںمنعقد ہوا تھا۔ یہ اجلاس مسلم لیگ کی تنظیم نو کے زمانے کا پہلا اجلاس تھا۔ جس کی اہمیت کے پیش نظر علامہ اقبال نے قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھاکہ اجلاس سے پہلے ہر صوبے کے اہم شہروں کا دورہ کریں تاکہ مسلم لیگ کی ترقی و ترویج کے کام میں آسانی رہے۔
 
لاہور
 
۲۸ مئی ۱۹۳۷ء
 
(بصیغہ راز)
 
محترم جناح صاحب
 
آپ کے نوازش نامہ کا شکریہ جو مجھے اس اثنا میں ملا ۔ مجھے یہ جان کر بیحد خوشی ہوئی کہ مسلم لیگ کے دستور اور پروگرام میں جن تبدیلیوں کے متعلق میں نے تحریر کیا تھا وہ آپ کے پیش نظر رہیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانان ہند کی نازک صورتحال کا آپ کو پورا پور ااحساس ہے مسلم لیگ کو آخرکار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت بنی رہے۔ یا مسلم جمہور کی جنہوںنے اب تک بعض معقول وجوہ کی بنا پر اس مسل لیگ میں کوئی دلچسپی نہیں لی میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی ضامن نہہو۔ ہمارے عوام کے لیے باعث کشش نہیں ہو سکتی۔
 
نئے دستور کے تحت اعلیٰ ملازمتیں تو بالائی طبقوں کے بچوں کے لیے مختص ہیں اور ادنیٰ ملازمتیں وزراء کے اعزا اور احباب کی نذر ہو جاتی ہیں دیگر امور میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی طرف کبھی غور کرنے کی ضرورت نہیں کی۔ روٹی کا مسئلہ اور بروز نازک تر ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گزشتہ دو سو سال سے وہ برابر تنزل کی طرف جا رہے ہیں  عام خیال یہ ہے کہ اس غربت کی وجہ ہندو کی ساہو کاری سود خوری اور سرمایہ داری ہے۔ یہ احساس کہ اس میں غیر ملکی حکومت بھی برابر کی شریک ہے ابھی پوری طرح نہیں ابھرا لیکن آخر کو ایسا ہو کر رہے گا۔ جو اہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گی۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علا ج کیا ہے مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منتحصڑ ہے۔ کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے۔
 
۱؎  اشتراکیت: ایک قدیم سیاسی نظریہ ہے جو ریاست میںانفرادی ملکیت کو ختم کر کے تمام ذرائع پیداوار کو ریاست کی تحویل میں دے دیتا ہے۔ کارل مارکس (۱۸۱۸ئ۔۱۸۸۳ئ) نے سب سے پہلے سے علمی اصولوں پر پیش کیا۔ مگر اس نظریہ کو مقبولیت اس کے بعد حاصل ہوئی۔ اشتراکیت میں خدا کا تصور بالکل نہیں۔ اس لیے اسے بے دین اشتراکیت کا نام دیا جاتا ہے۔ روس چین اور مغربی یورپ کے بہت سے ممالک میں اشتراکیت کا دور دورہ رہا ہے۔
 
اگر مسلم لیگ نے اس ضمن میں کوئی وعدہ نہ کیا تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوشی قسمتی سے مزید اسلامی قانون کے نفاذ میں اس کے حل موجود ہے۔ اور موجودہ نظریات کی روشنی میں اس میں مزید ترقی کا امکان ہے۔
 
اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کر دیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حق معاز محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقائایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے میرا یہی عقیدہ رہ ا ہے کہ اور اب بھی میراایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت روٹی کا مسئلہ اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام صرف اسی سے حل ہو سکتا ہے۔ اگر ہندوستان میں یہ ممکن نہیں ہے تو پھر دوسرا متبادل راستہ صرف خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کچھ عرصہ سے جاری ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ملک کے بعدحصوں مثلاً شمال مغربی ہندوستا ن میں فلسطین کی داستان دہرائی جائے گی۔ جواہر لال نہرو کی اشتراکیت کا ہنوئوں کی ہئت سیاسیہ کے ساتھ پیوند بھی خود ہندوئوںکے آپ کے خون خرابہ کا باعث ہو گا۔ اشتراکی جمہوریت اور برہمنیت ۲؎ کے درمیان وجہ ناع برہمینیت اور بدھ مت ۳؎ کے درمیان وجہ نزاع سے مختلف نہیں ہے۔ آیا اشتراکیت کا حشر ہندوستان میں بدھ مت جیسا ہو گا یا نہیں؟ میں اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ لیکن میرے ذہن میں ایک بات صاف ہے کہ اگر ہندو دھرم اشتراکی جمہوریت اختیار کر لیتا ہے تو خود ہندو دھرم ختم ہو جاتا ہے۔
 
۲؎  برہمنیت :  سے مراد ہندو مت ہے جو ایک قدیم مذہب ہے۔ یہ مذہب کسی مخصوص عقیدے یا کسی مخصوص شخصیت کی تعلیم سے ماخوذ نہیں بلکہ یہ متضاد اور مختلف اوہام اور بے بنیاد عقیدوںکا مجموعہ ہے جو ہندو معاشرت شدت سے ذات پات کاقائل ہے۔ ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ تمام انسان چار ذاتوں برہمن کھشتری ویش اور شودر میں منقسم ہیں۔ برہمن سب سے اعلیٰ اور اونچی ذات تصور کی جاتی ہے اور اسے دوسری ذاتوں پر ہمیشہ برتری حاصل رہی ہے۔
 
۳؎  بدھ مت: ایک قدیم غیر الہامی مذہب جس کی بنیاد گوتم بدھ (۵۶۳ق۔م۔ ۴۸۳ ق م) نے رکھی اس مذہب میں کسی خدا کا تصورنہیںہے بلکہ چند اخلاقی اور روحانی تعلیمات کا مجموعہ ہے۔ گوتم بدھ کے نزدیک زندگی دکھوں کا گھر ہے اور مصائب انسان کا مقدر ہیںَ ان سے نجات پانے کا طریقہ خواہشات کو ختم کر کے زندگی سے فرار اور رہبانیت
 
اسلام کے لیے اشتراکی جمہوریت کو مناسب تبدیلیوںاور اسلام کے اصول شریعت کے ساتھ اختیار کرنا کوئی انقلاب نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع ہو گا۔ موجودہ مسائل کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسان ہے لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے مسلم ہندوستان کے ان مسائل کا حل آسان طورپر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آپہنچا۔ شاید جواہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ ایک بہترین جواب ہے۔
 
بہرحال میں نے اپنے خیالات پیش کر دیے ہیں اس امید پر کہ آپ اپنے خطبہ یا مسلم لیگ کے آئندہ اجلاس کے مباحث میں ان پر سنجیدگی سے توجہ دیں گے۔ مسلم ہندوستان کو امید ہے کہ اس نازک دور میں آپ کی فراست موجودہ مشکلات کا کوئی حل تجویز کر سکے گی۔
 
آپ کا مخلص
 
محمد اقبال
 
مکرر آنکہ:  اس خط کے موضوع پر میرا ارادہ تھا کہ آپ کے نام اخبارات میں ایک کھلا خط شائع کرائوں مگر غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ موجودہ وقت ایسے اقدام کے لیے موزوں نہیں۔
 
اختیار کرنا ہے۔
 
لاہور
 
۲۱ جون ۱۹۳۷ء
 
(بصیغہ راز)
 
محترم جناح صاحب
 
کل آپ کا نوازش نامہ ملا۔ بہت بہت شکریہ! میں جانتا ہوں کہ آپ بہت مصروف آدمی ہیں۔ مگر مجھے توقع ہے کہ میرے بار بار خط لکھنے کو آپ بار خاطر خیال نہ کریں گے۔ اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صڑف آپ ہی کی ذات گرامی سے قوم محفوظ رہنمائی کی توقع کا حق رکھتی ہے میں عرض کرتا ہوں کہ ہم فی الحقیقت خانہ جنگی کی حالت ہی میں ہیں اگر فوج اور پولیس نہ ہو تو یہ (خانہ جنگی) دیکھتے ہی دیھتے پھیل جائے گزشتہ چند ماہ سے ہندو مسلم فسادات کا ایک سلسلہ قائم ہو چکا ہے صرف شمال مغربی ہندوستان میں گزشتہ تین مارہ میں کم از کم تین فرقہ وارانہ فسادات ہو چکے ہیں اور کم از کم چار وارداتیں ہنوئوں اور سکھوں کی طرف سے توہین رسالت کی ہو فکچی ہیں ان چاروں مواقع پر رسولؐ کی اہانت کرنے والوںکو قتل کردیاگیا ہے سندھ میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ میں نے تمام صورت حال کا اچھی طرح سے جائزہ لیا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ان حالات کے اسباب نہ مذہبی ہیں اور نہ اقتصادی بلکہ خالص سیاسی ہیں یعنی مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی ہندوئوں اور سکھوں کا مقصد صرف مسلمانوں پر خوف و ہراس طاری کرنا ہے۔ نیا دستور کچھ اس قسم کا ہے کہ مسلم اکثریتی صوبوں میںبھی مسلمانوں کو غیر مسلموں کے رحم ر کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہو اکہ مسلم وزارتیں کوئی مناسب کارروائی نہیںکر سکتیں بلکہ انہیں خود مسلمانوںسے ناانصافی برنا پڑتی ہے تاکہ وہ لوگ جن پر وزارت کا انحصار ہے خوش رہ سکیں اور ظاہر کیا جا سکے کہ وزارت قطعی طور پر غیر جانبدار ہے۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ ہمارے پاس اس دستور کو رد کرنے کی خاص وجوہ موجود ہیں۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیا دستور ہندوئوں کی خوشنودی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہندو اکثریتی صوبوں میں ہندوئوں کو قطعی اکثریت حاصل ہے اور وہ مسلمانوں کو بالکل نظر انداز کر سکتے ہیں۔ مسلم اکثریتی صوبوں میںمسلمانوں کا کاملاً ہنودوئوں پر انحصارکرنے کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے۔ میرے ذہن میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں کہ یہ دستور ہندوستانی مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے یک لیے بنایاگ یا ہے۔ علاوہ ازیں یہ اقتصادی مسئلہ کا بھی حل نہیں ہے جو مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ جانکارہ بن چکا ہے۔
 
کیمونل ایوارڈ ۱؎ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی وجود کو صرف تسلیم کرتا ہے۔ لیکن کسی قوم کے سیاسی وجود کا ایسا اعتراف جو اس کی اقتصادی پسماندگی کا کوئی حل تجویز نہ کر تا ہو اور نہ کر سکے اس کے لیے بے سود ہے۔ کانگرس کے صدر ۲؎ نے تو غیر مبہم الفاظ میں مسلمانوں کے (جداگانہ) سیاسی وجود سے ہی انکار کر دیا ہے ہندوئوں کی دوسری سیاسی جماعت یعنی مہا سبھا ۳؎ نے جسے میں ہندو عوام کی حقیقی نمائندہ جماعت سمجھتا ہوں بارہا یہ اعلان کیا ہے کہ ہندوستنا میں ایک متحدہ ہندو مسلم قوم کا وجود ناممکن ہے۔ ان حالات کے پیش نظر بدیہی حل یہ ہے کہ ہندوستا ن میںقیام امن کے لیے ملک کی از سر نو تقسیم کی جائے۔ جس کی بنیاد نسلی مذہبی اور لسانی اشتراک پر ہو۔ بہت سے برطانوی مدبرین بھی ایسای ہی محسوس کرتے ہین اور دستور کے جلو میں جو ہندو مسلم فسادات چلے آ رہے ہیں وہ ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ ملک کی حقیقی صورتحال کیا ہے؟
 
۱؎ کیمونل ایوارڈ:  گول میز کانفرنس میںفرقہ وارانہ نمائندگی کا مسئلہ حل نہ ہو سکا تو ۱۶ اگست ۱۹۳۲ء کو برطانوی وزیر اعظم نے ایک اعلان کیا جس میں ہندوستان کے مختلف فرقوں کی نمائندگی کا یقین کیا گیا۔ یہ اعلان کیمونل ایوارڈ کے نام سے شہور ہے۔ جس کی روسے مسلمانوں کے علاوہ سکھوں اور عیسائیوں اور اچھوتوں کے لیے بھی جداگانہ طریق انتخاب تسلیم کیا گیا۔
 
۲؎  کانگرس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو نے ۳۷۔۱۹۳۸ء کے انتخابات میں کانگرس کی غیر متوقع کامیابی کے بعد کلکتہ کے ایک جلسہ میں تقریر کرت ہوئے کہا کہ آج ہندوستان میںصرف دو فریق ہیں یعنی کانگرس اور برطانوی حکومت قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی وقت جواب دیا کہ ہندوتان میںدو نہیں بلکہ تین فریق ہیں کانگرس برطانوی حکومت اورمسلمان۔
 
۳؎  ہندو مہا سبھا:  ہندوستان کی ایک سیاسی جماعت جو بیسویں صدی کے شروع میں قائم کی گئی یہ جماعت ہندوئوںکو ایک الگ قوم تصور کرتی تھی اور متحدہ قومیت پر یقین نہیں رکھتی تھی لالہ لاجپت رائے (۱۸۶۵ئ۔ ۱۹۲۸ئ) ڈاکٹر مونجے (۱۸۷۲ئ۔۱۹۴۸ئ) اور ساورکر (۱۸۸۳ئ۔۱۹۶۶ئ) اس کے قابل ذکر رہنما تھے۔
 
مجھے یاد ہے کہ انگلستان سے روانگی سے قبل لارڈ لوتھیان ۴؎ نے مجھے کہا تھا کہ میری سکیم ۵؎ میں ہندوستان کے مصائب کا واحد حل ممکن ہے لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے ۲۵ سال درکار ہیں۔ پنجاب کے کچھ مسلمان شمال مغربی ہندوستان میںمسلم کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کر رہے ہیں۔ اور یہ تجویز تیزی سے مقبولیت اختیار کر رہی ہے۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ ہماری قوم ابھی اتنی زیادہ منظم نہیں ہوئی۔ اورنہ ہی ان میں اتنا نظم و ضبط ہے اور شاید ایسی کانفرنس کے انعقاد کا ابھی موزوں وقت بھی نہیں لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے خطبہ میں کم از کم اس طریق عمل کی طرف اشارہ ضرور کر دینا چاہیے۔ جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر اختیار کرنا پڑے گا۔
 
میرے خیال میں تو نئے دستور میں ہندوستان بھر کو ایک ہی وفاق میں مربوط رکھنے کی تجویز بالکل بے کار ہے۔ مسلم صوبوں کے ایک جداگانہ وفاق کا قیام اس طریق پر جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ صرف واحد راستہ ہے کہ جس سے ہندوستان میں امن و امان قائم ہو گا اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ و تسلط سے بچایا جاسکے گا۔ کیوں نہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ اقوام تصور کیا جائے جنہیں ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دوسری اقوام کی طرح حق خود اختیاری حاصل ہو۔
 
ذاتی طورپر میرا خیال ہے کہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو فی الحال مسلم اقلیت کے صوبوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ مسلم اکثریت اور مسلم اقلیت کے صوبوں کا بہترین مفاد اسی طریق کو اختیار کرنے میں ہے۔ اس لیے مسلم لیگ کا آئندہ اجلاس کسی مسلم اقلیت کے صوبہ کی بجائے پنجاب میں منعقد کرنا بہترہو گا۔ لاہور میں اگست کا مہینہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔
 
۴؎  لارڈلوتھیان۔ (۱۸۸۲ئ۔ ۱۹۴۰ئ) برطانوی نواب اور سیاست دان تھے گول میز کانرنس میں برطانوی مندوب تھے ۱۹۳۸ء میں ہندوستان تشریف لائے۔ اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کانووکیشن سے خطاب کیا امریکہ میں برطانیہ کے سفیر بھی رہے۔
 
۵؎  میری سکیم سے مراد علامہ اقبال کی وہ تجویز ہے جو آپ نے ۱۹۳۰ء کو الہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے خطبہ صدارت کے دوران پیش کی تھی۔ یعنی پنجاب سرحد سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک اسلامی ریاست قائم کر دی جائے۔
 
میرے خیال میں آپ کو لاہور میں وسط اکتوبر میں جب موسم خوشگوار ہو جاتا ہے مسلم لیگ کے اجلاس کے انعقاد کے بارے میں غور فرمائیں پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ سے دلچسپی تیزی سے بڑھ رہی ہے اورلاہور میں مسلم لیگ کے آئندہ اجلاس کا انعقاد پنجاب کے مسلمانوں میں ایک نئی سیاسی بیدار ی کا باعث ہو گا۔
 
آ پ کا مخلص
 
محمد اقبال بار ایٹ لاء
 
لاہور ۱۱؍ اگست ۱۹۳۷ء
 
محترم جناح صاحب
 
واقعات نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ مسلم لیگ کو اپنی تمام تر سرگرمیاں شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوںپر مرکوز کر دینی چاہیے مسلم لیگ کے دہلی دفتر نے مسٹر غلام رسول کو مطلع کیا ہے کہ مسلم لیگ کے اجلاد کی تاریخ تاحال طے نہیں ہوئی۔
 
اندرین حالات مجھے اندیشہ ہے کہ اگست اور ستمبر میں اجلاس نہیں ہو سکے گا۔ لہٰذا میں مکرر درخواست کرتا ہوں کہ مسلم لیگ کا اجلاس اکتوبر کے وسط یا آخر میں لاہور میں منعقد کیا جائے۔ پنجاب میںمسلم لیگ کے لیے جوش و خروش برابر بڑھ رہا ہے۔ اور مجھے قوی امید ہے کہ لاہور میں اس اجلاس کا مسلم لیگ کی تاریخ میں ایک انقلاب آفریں باب اور عوام سے رابطہ استوار کرنے کے لیے ایک اہم ذریعہ ثابت ہو گا۔ براہ کرم! جواب میں چند سطریں لکھیے۔
 
آپ کا مخلص
 
محمد اقبال بار ایٹ لاء
 
٭٭٭
 
میو روڑ لاہور
 
۱۳؍ اگست ۱۹۳۷ء
 
محترم جناح صاحب
 
جیسا کہ کل میںنے آپ کو لکھا تھا کہ پنجاب میں مسلم لیگ کے لیے جوش و خروش بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ آپ یہ سن کر خوش ہوں گے کہ پنجاب کے مختلف شہروں میں پنجاب صوبائی مسلم لیگ کے (باقاعدہ) آغار کار کے بغیر لیگ کی تقریباً ۲۰ شاخیں قائم ہو گئی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر پنجاب مسلم لیگ کے کچھ عہدیدار صوبے کا دورہ کر سکیں۔ تووہ نہ صرف رقم اکٹھی کر سکیں گے۔ بلکہ پنجاب کے عام مسلمانوں کی آنکھیں اس صورتحال کے بارے میں جو خوش قسمتی سے ود ہی مسلمانوں کے بارے میں کانگرس کے رویے سے پیدا ہو چکی ہیں کھول دیں گے۔ اگرچہ بد قسمتیسے صوباء لیگ اس قسم کے دوسرے کے لیے ابتدائی خراجات کے لیے رقم کے فقدان کی وجہ سے بڑی دشواری میں ہے ۔ کیاآپ مرکزی فنڈ سے تقریباً ۱۵۰۰ روپے عطیہ کر سکیں گے؟ مجھے امید ہے کہ ہمارے آدمی کافی رقم اکٹھی کر لیں گے جس سے ہم آپ سے مستعار لی ہوئی رقم واپس کر سکیں گے۔ اگر آپ اپنی اولین فرصت میں ایسا کر سکیں تو ہم بڑے ممنون ہوں گے۔
 
آپ کا مخلص
 
محمد اقبال
 
٭٭٭
 
لاہور
 
۷۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء
 
(بصیغہ راز)
 
محترم جناح صاحب
 
مسلم لیگ کے لکھنو اجلاس ۱؎ میں پنجاب سے خاصی تعداد کی شرکت کی توقع ہے۔ یونینسٹ مسلمان بھی سر سکندر حیات کے قیادت سے شرکت کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ آج کل ہم ایک پرآشوب دور سے گزر رہے ہیں اور ہندوستانی مسلما ن امید کرتے ہیں کہ آپ اپنے خطبے میں جملہ امور میں جن کا تعلق قوم کے مستقبل سے ہے ان کی کامل اورواضح ترین راہنمائی فرمائیں گے۔ میری تجویز ہے کہ مسلم لیگ ایک مناسب قرارداد کی صورت میں کمیونل ایوارڈ سے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان یا مکرر وضاحت کرے۔ پنجاب او ر معلوم ہوا ہے کہ سندھ میں بھی بعض فریب خوردہ مسلمان اس فیصلہ کو اس طرح تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں کہ یہ ہندوئوں کے حق میں زیادہ مفید ہو جائے۔ ایسے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے وہ اپنا اقتدار بحال رکھ سکیں گے۔ ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ برطانوی حکومت ہندوئوں کو خوش کرنا چاہتی ہے جو کیمونل ایوارڈ میں گڑبڑ کرانے کوخوش آمدید کہیں گے۔ لہٰذا وہ (برطانوی حکومت) کوشش کر رہی ہے کہ اپنے مسلم ایجنٹوں کے ذریعے اس میں گڑبڑ کرائے۔
 
مسلم لیگ کونسل کی خالی نشستوں کے لیے میں ۲۸ افراد کی فہرست تیار کروں گا۔ مسٹر غلام رسول آ پ کو وہ فہرست دکھا دیں گے۔ مجھے امید ہے کہ یہ انتخاب پورے غور و خوض سے کیا جائے گا۔ ہمارے آدمی ۱۳ تاریخ کو لاہور سے روانہ ہوں گے۔
 
مسئلہ فلسطین ۲؎ نے مسلمانوںکو مضطرب کر رکھا ہے۔ مسلم لیگ کے مقاصد کے لیے عوام میں رابطہ پیدا کرنے کا یہ ہمارے لیے نادر موقع ہے۔
 
۱؎  لکھنو اجلاس: مسلم لیگ کا پچیسواں سالانہ اجلاس جو ۱۵۔۱۸ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو لکھنو میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں ہوا۔
 
۲۔  مسئلہ فلسطین:  دنیائے اسلام کا اہم ترین دینی اور سیاسی مسئلہ ہے۔ فلسطین کا علاقہ بحرہ روم کے
 
مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ اس مسئلہ پر ایک زور دار قرارداد ہی منظور نہیں کرے گی بلکہ لیڈروں کی ایک غیر رسمی کانفرنس میں کوئی ایسا لائحہ عمل بھی تیار کیا جائے گا جس میں مسلمان عوام بڑی تعداد میں شامل ہو سکیں۔ اس سے ایک طرف تو مسلم لیگ کو مقبولیت حاصل ہو گی۔ اور دوسری طرف شاید فلسطین کے عربوں کو فائدہ پہنچ جائے۔ ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کے لیے جس کا اثر ہندوستان اور اسلام دونوں پر پڑتا ہو جیل جانے کے لیے تیار ہوں۔ مشرق کے عین دروازہ پر ایک مغربی چھائونی کا قیام (اسلام اور ہندوستان) دونوں کے لیے پر خطر ہے۔
 
بہترین تمنائوں کے ساتھ۔
 
آپ کا مخلص
 
محمد اقبال بار ایٹ لائ۔
 
مکرر آنکہ:  مسلم لیگ یہ قرار داد پاس کرے یکہ کوئی صوبہ دوسری اقوام کے ساتھ کیمونل ایوارڈ سے متعلق کوئی سمجھوتہ کرنے کا مجاز نہ ہو گا۔ یہ ایک کل ہند مسئلہ ہے اور صرف مسلم لیگ ہی کو اس کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ آپ ایک قد م آگے بڑھ کر کہیں کہ موجودہ فضا کسی فرقہ وارانہ سمجھوتہ کے لیے مناسب نہیں۔
 
کنارے پر مصر شام اردن اور سعودی عرب سے متصل ہے۔ اسرائیل نے مغربی سامراج کے تعاون پرعلاقہ پر قبضہ کر کے اپنی ریاست قائم کر رکھی ہے اس کے اسباب و علل میں اسلام دشمنی‘ عربوں کو تباہ و برباد کرنے اور دنیا کی عظیم آبی شاہراہ نہر سویز کو اپنے قبضہ و تصرف میں لانا ہے۔ فلسطین آزادی کے لیے نہ صرف عرب سرگر م ہیں بلکہ دنیا بھر کی اسلامی حکومتیں بھی عربوں کی ہم نوا ہیں۔
 
لاہور
 
۳۰؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء
 
(بصیغہ راز)
 
محترم جناح صاحب
 
امید ہے ہ آپ کے مطالعہ سے آل انڈیا کانگرس کمیٹی کی منظور کردہ قرارداد گزر چکی ہو گی۔ آپ کے بروقت قدم نے صورتحال کو بچا لیا۔ ہم سب کانگرس کی قرارداد پر آپ کے تاثرات کے منتظر ہیں۔ ٹریبیون ۱؎ لاہور نے پہلے ہی اس پر تنقید کی ہے ۔ اور مجھے امید ہے کہ ہندوئوںکی رائے بھی بالعموم اس کے خلاف ہی ہو گی۔ لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے اس کا اثر خواب آور نہ ہونا چاہیے۔ ہمیں تنظیم کا کام پہلے سے زیادہ گرم جوشی کے ساتھ جاری رکھنا ہے اور اس وقت تک دم نہیں لینا جب تک کہ پانچ صوبوں ۲؎ میں مسلم حکومتیں قائم نہیں ہو جاتیں نیز بلوچستان میں بھی اصلاحات کا نفاذ نہیں ہو جاتا۔
 
سننے میں آیا ہے کہ یونینسٹ پارٹی کا ایک حصہ مسلم لیگ کے نصب العین پر دستخط کرنے کو تیار نہیں۔ ابھی تک سر سکندر حیات اور ان کی پارٹی نے اس پر دستخط نہیں کیے۔ مجھے آج صبح معلوم ہوا ہے کہ وہ مسلم لیگ کے آئندہ اجلاس تک انتظار کریں گے۔ جیسا کہ خود ان میں سے ایک ممبر نے مجھے بتایا ہے کہ ان کا منشا صوبائی مسلم لیگ کی سرگرمیوں کو کمزور کرنا ہے بہرحال میں چند روز میں آپ کو پورے کوائف سے مطلع کر دوں گا۔ اور پھر آپ کی رائے درکار ہو گی کہ ہم کس طرح کام  جاری رکھیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ اجلاس لاہور سے پہلے کم از کم دو ہفتوں کے لیے آپ پنجاب کا دورہ کریں گے۔
 
آپ کا مخلص
 
محمد اقبال بار ایٹ لاء
 
۱؎  ٹریبیون:  لاہور سے شائع ہونے والا انگریزی روزنامہ جو کانگرس کے پروگرام اور ہندو نقطہ نگاہ کی اشاعت و ترویج میں پیش پیش تھا۔
 
۲؎  پانچ صوبے:  ۱۔ پنجاب۔۲۔ سندھ۔ ۳۔ شمال مغربی سرحدی صوبہ ۴۔ بنگال۔ ۵۔ آسام
 
لاہور
 
یکم نومبر ۱۹۳۷ء
 
(ضروری)
 
محترم جناح صاحب
 
سر سکندر حیات خان اپنی پارٹی کے چند اراکین کے ہمراہ کل مجھے ملے ۔ ہمارے درمیان دیر تک مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی کے باہمی اختلافات پر گفتگو ہوتی رہی۔ دونوں فریقوں کی طرف سے اخبارات کو بیانات جاری کر دیے گئے۔ ہر ایک فریق جناح سکندر معاہدہ ۱؎ کے بارے میں اپنی اپنی تاویل کرتا ہے۔ اس سے بہت زیادہ غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے جیسا کہ میں نے آپ کو لکھا تھا کہ میںیہ سارے بیانات چند روز میں آپ کو ارسال کر دوں گا۔ سردست میری درخواست ہے کہ آپ مجھے اس سمجھوتہ کی ایک نقل جس پر سر سکندر حیات کے دستخط ہیں اور جو میرے علم کے مطابق آپ کے پاس ہے جلد بھجوا دیجیے۔ آپ سے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ آیا آپ صوبائی پارلیمانی بورڈ کو یونینسٹ پارٹی کے اختیار میں دینے پر رضامند ہو گئے تھے۔ سر سکندر حیات کا مجھ سے یہ کہنا کہ آپ اس پر راضی ہو گئے ہیں لہٰذا ان کا مطالبہ ہے کہ یونینسٹ پارٹی کو بورڈ میں اکثریت ہونی چاہیے۔ جہاں تک میرا خیال ہے جناح سکندر معاہدہ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
 
براہ کرم! اس خط میں کا جواب جلد از جلد عنایت فرمائیے ہمارے آدمی ملک کا دورہ کر رہے ہیں اور مختلف مقامات پر مسلم لیگ (کی شاخیں) قائم کر رہے ہیں۔ گزشتہ رات لاہور میں ہم نے ایک خاصہ کامیاب جلسہ کیا ہے۔ اب یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
 
آپ کا مخلص
 
محمد اقبال (بار ایٹ لائ)
 
۱؎  جناح سکندر معاہدہ  اکتوبر ۱۹۳۷ء میں قائد اعظم محمد علی جناح اور سر سکندر حیات کے درمینا تبادلہ خیالات ہواجس کے بعد سر سکندر حیات خاں نے اعلان کیا کہ وہ اپنی یونیسٹ پارٹی کے مسلم اراکین کو ہدایت کریں گے کہ وہ مسلم لیگ کے ممبر بن جائیں اور وہ مسلم لیگ کے قواعد و ضوابط کی پابندی کریں۔ اس سے اس وقت کی مخلوط یونینسٹ وزارت پر کوئی فر ق نہیں پڑے گا اور مسلم لیگ کے صوبائی پارلیمانی بورڈ کی از سر نو تشکیل ہو گی۔ یہ اعلان بعد میں جناح سکندر معاہدہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس معاہدہ کی رو سے سر سکندر حیات خان کو مسلم لیگ کی حمایت حاصل ہو گئی اور مسلم لیگ میں پنجاب کے وزیر اعظم اور اس کے ساتھیوں کی شمولیت سے مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت مسلم ہو گئی۔
 
لاہور
 
۱۰؍ نومبر ۱۹۳۷ء
 
(بصیغہ راز)
 
محترم جناح صاحب
 
سر سکندر اور ان کے احباب سے متعدد گفتگوئوں کے بعد اب میری قطعی رائے ہے کہ سر سکندر اس سے کم کسی چیز کے خواہش مند نہیںکہ مسلم لیگ اور صوبائی پارلیمانی بورڈ پر ان کا مکمل قبضہ ہو۔ آپ کے ساتھ ان کے معاہدہ میں یہ مذکورہے کہ پارلیمانی بورڈ کی نئے سرے سے تشکیل کی جائے گی اور اس میں یونینسٹ پارٹ کو اکثریت حاصل ہو گی۔ سر سکندر کہتے ہیں کہ آپ نے بورڈ میں ان کی اکثریت تسلیم کر لی ہے۔ میں نے پچھلے دنوںایک خط لکھ کر دریافت کیا تھا کہ کیا واقعی آپ نے پارلیمانی بورڈ میں یونینسٹ کی اکثریت منظور کر لی ہے؟ ابھی تک آپ نے مجھے اس بارے میں کوئی اطلاع نہیںدی۔ ذاتی طور پر مجھے انہیں وہ کچھ دینے میں کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا جس کے وہ خواہش مند ہیں لیکن جب وہ مسلم لیگ کے عہدیداروں میں مکمل ردوبدل کا مطالبہ کرتے ہیں تو منشائے معاہدہ سے تجاوز کر جاتے ہیں بالخصوص سیکرٹری (کی علیحدگی کا مطالبہ) حالانکہ انہوںنے مسلم لیگ کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ کی مالیات پر بھی ان ہی کے آدمیوں کا اختیار ہو۔ میرے خیال میں تو وہ اس طرح مسلم لیگ پر قبضہ کر کے اسے ختم کر دینا چاہتے ہیں صوبے کی رائے کی پوری جان پہچان رکھتے ہوئے ہیں مسلم لیگ کو سر سکندر اور اس کے احباب کے حوالے کر دینے کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ معاہدے کے باعث پنجاب مسلم لیگ کے وقار کو سخت نقصان پہنچا ہے اوریونیسٹوں کے ہتھکنڈے اسے اور بھی نقصان پہنچائیں گے۔ انہوںنے ابھی تک مسلم لیگ کے منشور پر دستخط نہیںکیے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ کرنا بھی نہیں چاہتے۔ لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس وہ فروری کی بجائے اپریل میں چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ صوبہ میںاپنی زمیندارہ لیگ ۱؎ کے قیام و استحکام کے لیے مہلت چاہتے ہیں۔
 
۱؎  زمیندارہ لیگ:  ۱۹۳۷ء میں سر سکندر حیات خاں نے پنجاب کے زمینداروں اور جاگیر دارو کی ایک تنطیم زمیندارہ لیگ کے نام سے قائم کی مگر اس کو کوئی مقبولیت حاصل نہ ہوئی۔
 
شاید آپ کو معلوم ہو گا کہ لکھنو سے واپسی پر سر سکندر نے ایک زمیندارہ لیگ قائم کی ہے جس کی شاخیں صوبہ بھر میں قائم کی جا رہی ہیں اندریں حالات براہ کرم مجھے مطلع فرمائیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اگر ہو سکے تو بذریعہ تار اپنی رائے سے مطلع فرمائیے وگرنہ فوری ایک مفصل خط تحریر فرمائیے۔
 
آپ کا مخلص
 
محمد اقبال
 
بار ایٹ لاء
 
</div>
 

Latest revision as of 22:09, 11 July 2018