Actions

Difference between revisions of "Ashaa'at ki kahani"

From IQBAL

(اشاعت کی کہانی)
(Tag: Replaced)
 
(2 intermediate revisions by the same user not shown)
Line 1: Line 1:
 
<div dir="rtl">
 
<div dir="rtl">
==اشاعت کی کہانی==
 
 
 
 
’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘ (Letters of Iqbal to Jinnah)ہماری تاریخی دستاویزات کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اقبالیات اور تحریک پاکستان کے شائقین کے لیے ان کا مطالعہ بڑا دلچسپ اور اہم ہے۔ کیونکہ یہ خطوط مفکر پاکستان علامہ اقبال (۱۸۷۷ء ۔ ۱۹۳۸ئ) اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح (۱۸۷۶ئ۔۱۹۴۸ئ) کے درمیان گہر ے تعلقات اور فکری ہم آہنگی کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اساس کا تعین بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ خطوط برصغیر جنوب مشرقی ایشیاء کے ایک خاص عہد کے سیاسی حالات اور مسائل پر علامہ اقبال کے نقطہ نگاہ کی وضاحت کرتے ہیں۔ یہ خطوط ایسے وقت لکھے گئے تھے جب ہندوستانی مسلمان اپنی تاریخ کے ایک نازک دور سے گزر رہے تھے۔ برصغیر میں مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کا مسئلہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہا تھا۔ اس فکری انتشار کے زماے میں علامہ اقبال کی سیاسی بصیرت نے منزل کی نشاندہی کی اور اس کے راستوں کو روشن کیا۔ یہ خطوط ایک طرح سے خطبہ الہ آباد کے اجمال کی تفصیل ہی ہیں۔ ان خطوط میں برصغیر کے دستور مسائل ‘ مسلم لیگ کی تنظیم نو‘ مسلم ایشیاء کے مستقبل‘ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کا قیام اور اس میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے بارے میں علامہ اقبال نے کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ تحریک پاکستان کے پس منظر اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ان خطوط کا مطالعہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
 
سب سے پہلی دفعہ ’’اقبال کے خطو ط جناح کے نام‘‘ انگریزی میںلاہور کے مشہور و معروف ناشر شیخ محمد اشرف (۱۹۰۳ئ۔۱۹۸۰ئ) نے اپریل ۱۹۴۳ء میں شائع کیے۔ اسی سال یہ خطوط ادارہ اشاعت اردو حیدر آباد (دکن) کے زیر اہتمام اردو زبان میں شائع ہوئے۔ ا س کے بعد یہ خطوط متعدد بار شائع ہونے کے علاوہ برصغیر کی دوسری زبانوں مثلاً بنگالی او ر تامل وغیرہ میں بھی شائع ہوئے۔ ان خطوط کی اشاعت کی کہانی بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔
 
’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کی دریافت اور اشاعت کا سہرا جناب محمد شریف طوسی (۱۹۰۰ئ۔ ۱۹۸۳ئ) کے سر ہے۔ آ پ ان دنوں (دسمبر ۱۹۴۲ء تا مئی ۱۹۴۳ئ) بمبئی میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ذاتی کتب خانہ(لائبریری) میں اپنی کتاب (Pakistan Movement 1906-1942)کی تیاری کے لیے مواد تلاش کر رہے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نام برصغیر کے مختلف رہنمائوں کے لکھے ہوئے خطوط آپ کے ہاتھ لگے۔ آپ نے ان کی چھان بین کر کے ہر ایک رہنما کے خطوط الگ الگ کیے۔ ان میں علامہ اقبال کے خطوط بھی تھے جو انہوںنے مئی ۱۹۳۶ء سے نومبر ۱۹۳۷ء کے درمیانی عرصہ میں قائد اعظم محمد علی جناح کے نام لکھے تھے آپ نے ان تمام خطوط کو تجو کہ تعدادمیں تیرہ (۱۳) تھے ترتیب دے کر ٹائپ کیا۔ پھر انہیں قائد اعظم محمد علی جناح کے حضور پیش کیا کہ ان خطوط کی اشاعت کا بندوبست ہونا چاہیے۔ ابتدا میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کی اشاعت پر کچھ تامل کیا لیکن جب محمد شریف طوسی (۱۹۰۰ء ۔ ۱۹۸۳ئ) نے قائد اعظم محمد علی جناح پر واضح کیا کہ یہ خطوط برصغیر کے مسلمانوںکے  نقطہ نگاہ سے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں او ر ان کی اشاعت سے ملک بھر میں اور خصوصاً پنجاب میں مسلم لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا۔ اس خط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس میں علامہ اقبال نے قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھا تھا:
 
اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے قوم محفوظ رہنمائی کی توقع رکھتی ہے‘‘۔
 
انہو ں نے کہا کہ اس سے نہ صرف تحریک پاکستان کو مقبولیت حاصل ہو گی بلکہ اس سے ایک تازہ ولولہ ملے گا ۱؎۔
 
۱؎  ایم ایس طوسی My Reminiscencesکراچی ۱۹۷۶ء ص ۔ ۱۱
 
قائد اعظم محمد علی جناح ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘ کی اشاعت پر رضامند ہو گئے۔ چنانچہ ان کے لیے اشاعت کے لیے یہ مناسب خیال کیا گیا کہ علامہ اقبال کے خطوط کے جواب میں جواب خطوط قائد اعظم محمد علی جناح نے تحریر کیے تھے ا کو بھی ان کے ساتھ شائع کیا جائے۔ اس سلسلے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے بمبئی سے ۲۸ جنوری ۱۹۴۳ء کو لاہور میں میاں بشیر احمد (۱۸۹۳ئ۔۱۹۷۱ئ) ایڈیٹر ’’ہمایوں‘‘ کو لکھا کہ علامہ اقبال کے خطوط کے جواب میں انہوںنے جو خطوط لکھے تھے ان کو تلاش کرا کے ارسال کر دیں۔ ۱۵ فروری ۱۹۴۳ء کو دوبارہ قائد اعظم محمد علی جناح نے میاں بشیر احمد کو لکھا کہ ان خطوط کی اشاعت سے مسلم عوام کی بڑی خدمت ہو گی اور خصوصاً اس مقصد کو جس کے لیے ہم لڑ رہے ہیں میاں بشیر احمد نے ۲۴ فروری ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کو جواب دیا کہ علامہ اقبال کے ترکہ کے نگران چوہدری محمد حسین )۱۸۹۴ئ۔ ۱۹۵۰ئ) ان کے خطوط کو تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں لہٰذا اب ان خطوط کو جو قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے تبصرہ Commentsکے ساتھ یا اس کے بغیر شائع کرا دیں ۔ ۲؎
 
لاہور کے مشہو رو معروف ناشر شیخ محمد اشرت (۱۹۰۳ئ۔ ۱۹۸۰ئ) کی خدمات اس سلسلے میں بڑی نمایاں ہیں کہ انہوںنے قیام پاکستان سے پہلے اسلام اور تحریک پاکستان کے موضوع پر بہت زیادہ کتابیں شائع کیں جبکہ اس زمانے میںاشاعت کا کام اتنا زیادہ مالی طور پر منفعت بخش نہیں تھا۔ جتنا کہ اب ہے۔ بہرحال تحریک پاکستان کی نشرواشاعت کا کام اتنا زیادہ مالی طور پر منفعت بخش نہیں تھا۔ جتنا کہ اب ہے۔ بہرحال تحریک پاکستان کینشر و اشاعت کے سلسلے میں شیخ محمد اشرف کی خدمات کا اعتراف ہمیں کھلے دل سے کرنا چاہیے کہ انہوںنے اپنے مخصوص دائرہ کار میں کام کرتے ہوئے قیام پاکستان کی جدوجہد میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان دنوں شیخ محمد اشرف سید مطلوب الحسن (۱۹۱۵ئ۔۱۹۸۴ئ) کی کتاب محمد علی جناح…ایک سیاسی مطالعہ‘‘ کی اشاعت کا انتظام کر رہے تھے اور ان کا قائد اعظم محمد علی جناح سے رابطہ تھا۔ اسی سلسلے میں شیخ محمد اشرف مارچ ۱۹۴۳ء کے آخری ہفتہ میں قائد اعظم محمد علی جناح سے دہلی میں ملے ۔
 
۱؎  جمیل الدین احمد Quaid-e-Azam as seen by his contemporatiesلاہور ۱۹۶۶ء ص ۱۷۔
 
اس ملاقات میںدیگر امور کے علاوہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کی اشاعت کا کام شیخ محمد اشرف کے سپرد یا۔ اور معاملہ اس طرح طے پایا کہ ان خطوط کا پہلا ایڈیشن تین ہزار کی تعداد میں چھاپا جائے گا۔ اور اس کی رائلٹی شیخ محمد اشرف کو مبلغ تین سو روپے یکمشت ادا کریں گے۔ یہ رقم مسلم لیگ کے فنڈ کے لیے عطیہ ہو گی۔
 
۲۷ مارچ ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے ان خطوط کی اشاعت کے بارے میں شیخ محمد اشرف کو لکھا کہ جیسا کہ پچھلے دنوں انہوںنے ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘شائع کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا کہ وہ پہلا ایڈیشن تین ہزار کی تعداد میں چھپوائیں گے اور اس کے لیے رائلٹی کے طور پر مبلغ تین سو روپے یکمشت ادا کریں گے۔ لہٰذا اس رقم کاچیک ارسال کر دیں انہیں خطوط مع پیش لفظ کے ارسال ہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے اس خط میں وضاحت کر دی کہ یہ انتظام صرف پہلے ایڈیشن کے لیے ہے اور اس ایڈیشن میں صرف تین ہزار کاپیاں چھپوائی جائیں گی اور امید ظاہر کی کہ ان کی اشاعت خوبصورت طریق پر ہو گی اور اس کے صفحہ اول پر علامہ اقبال کی اچھی سی تصویر شائع کرنے کا بھی انتظام کیا جائے گا۔ ان خطوط کی ایک سو کاپیاں اعزازی طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کو ارسال کی جائیں گی۔ طباعت کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے خط کے آخیر میں پھر لکھا کہ اس سلسلے میں انہیں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود اس کے ماہر ہیں اورا نہیں توقع ہے کہ وہ ان خطوط کو بڑے خوبصورت انداز میں طبع کرائیں گے۔
 
۲۷ مارچ ۱۹۴۳ء کو ہی شیخ محمد اشرف نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک خط لکھا جس میں تحریر کیا گیا کہ اقبال کے خطوط کی اشاعت کے لیے معاہدہ کا مسودہ مع تین سو روپے کا بنک ڈرافٹ ارسال خدمت ہے معاہدہ کی ایک نقل دستخط کے بعد واپس کر دیں۔ خطوط اقبال کے لیے ان کے تجویز کردہ نام کے صحیح الفاظ انہیں یاد نہیں رہے۔ لہٰذا وہ معاہدہ کے مسودہ میں خالی جگہ پر نام لکھ دیں اور توقع ظاہر کی کہ انہوں نے ان خطوط کے تعارف کے طور پر پیش لفظ لکھ دیا ہو گا۔ ۳؎
 
۳؎ سید شمس الدین Plain Mr. Jinnahکراچی ۱۹۷۱ء ص ۶۵۔۱۶۴
 
’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کے لیے پیش لفظ کا مسودہ محمد شریف طوسی نے تیار کیا تھا اور ٹائپ کرنے کے بعد اسے قائد اعظم محمد علی جناح کے سامنے پیش کیا ۔ انہوںنے اس میںمعمولی سی ترمیم و تنسیخ کے بعد اس کی منظوری دے دی ۔ پیش لفظ کا یہ مسودہ محمد شریف طوسی نے اپنے پا س محفوظ رکھ لیا تھا۔ ۴؎ ان کی وفات کے بعد یہ مسودہ ان کے خلف الرشید ڈاکٹر انور طوسی (جدہ) کے پاس محفوظ تھا۔ ۵؎
 
۳۱ مارچ ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے شیخ محمد اشرف کے خط محررہ ۲۷ مارچ ۱۹۴۳ء کے جواب میں تحریر کیا کہ انہیں ان کا خط مل گیا ہے۔ جس میں مبلغ تین سو روپے کا بنک ڈرافٹ اورمعاہدہ کا مسودہ تھا۔ معاہدہ کی ایک نقل واپس بھیج رہا ہوں۔ خطوط اقبال کا نام ''Letter of Iqbal to Jinnah"مناسب ہے۔ ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ء ہی کو شیخ محمد اشرف نے قائد اعظم محمد علی جناح کے خط محررہ ۲۷ فروری ۱۹۴۳ء کا جواب دیا۔ جس میںتحریر کیا کہ انہیں خطوط اقبال مع پیش لفظ مل گئے ہیں۔ اور دریافت کیا کہ اس کتابچہ کا نام کیا ہو؟ اس کتابچہ کی قیمت کے بارے میں شیخ محمد اشرف نے اس خط میں لکھا کہ وہ حساب کتاب کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کتابچہ کی قیمت صرف آٹھ آنے کم رہے گی ۔ اس لیے ان کے خیال میں اس کی قیمت بارہ آنے ہونی چاہیے۔ اور اس ضمن میں قائد اعظم محمد علی جناح کی اجازت چاہی۔ ۴ اپریل ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے شیخ محمد اشرف کو جواب دیا کہ خطوط اقبال کے کتابچہ کا نام "Letters of Iqbal to Jinnah"ہو اور اگر وہ مناسب خیال کرتے ہیں تو اس کی قیمت آٹھ آنے کی بجائے بارہ آنے رکھ لیں۔
 
۱۴ اپریل ۱۹۴۳ء کو شیخ محمد اشرف نے قائد اعظم محمد علی جناح کو اطلاع دی کہ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘زیر طبع ہیں اور امید ظاہر کی کہ اس ہفتہ کے آخر تک کتاب تیار ہو جائے گی ۔ اپریل ۱۹۴۳ء میں کتاب چھپ کر مارکیٹ میں فروخت کے لیے پہنچ گئی ہے۔ کتاب کی فروخت بڑی تیزی کے ساتھ ہوئی۔
 
۴؎  ایم ایس طوسی کتاب مذکورہ ص نمبر ۱۲
 
۵؎  روزنامہ ’’نوائے وقت لاہور ‘‘ میگزین ۴ ستمبر ۱۹۸۷ء صفحہ نمبر ۶
 
چنانچہ ۳۱ دسمبر ۱۹۴۳ء کو شیخ محمد اشرف نے قائد اعظم محمد علی جناح کو خط کے ذریعے اطلاع دی کہ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کی فروخت بڑی اچھی ہو رہی ہے۔ اس کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ۱۹ جنوری ۱۹۴۴ء کو تحریر کیا کہ انہیں یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ خطوط اقبال کی فروخت بہت اچھی ہو رہی ہے۔
 
مارچ ۱۹۴۴ء تک ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ چنانچہ ۳۱ مارچ ۱۹۴۴ء کو شیخ محمد اشرف کے قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھا کہ ان ہی شرائط پر جن پر پہلے معاہدہ ہوا تھا اقبال کے خطوط کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کی اجازت فرمائیے۔ مبلغ تین سو روپے کا چیک ارسال خدمت ہے۔ اس کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ۸ اپریل ۱۹۴۴ء کو شیخ محمد اشرف کو تحریر کیا کہ انہیں ان کا خط مع تین سو روپے مبلغ کی مالیت کا چیک مل گیا ہے۔ اور وہ رضامند ہیں کہ خطوط کا دوسرا ایڈیشن تین ہزار کی تعداد میں شائع کر لیں اور اس کی شرائط وہ ہوں گی جو پہلے ایڈیشن کے لیے ۲۷ مارچ ۱۹۴۳ء کے معاہد ہ میں طے ہو چکی ہیںَ ۸ اپریل ۱۹۴۴ء کو شیخ محمد اشرف نے دوبارہ قائد اعظم محمد علی جناح سے درخواست کی کہ براہ کرم ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ ۱۰ اپریل ۱۹۴۴ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کا جواب دہلی سے لکھاکہ وہ ان کے خط محررہ ۸ اپریل کے لیے ممنون ہیں اور پہلے ہی ان کو اقبال کے خطوط کی اشاعت کی اجازت کے بارے میں لکھ چکے ہیں۔ ۶؎
 
’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کے دوسرے ایڈیشن میں علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کی تصاویر بھی تھیں۔ اس کے بعد یہ کتاب متعدد بار شائع ہوئی۔ تیسرا ایڈیشن ۱۹۵۶ء میں طبع ہوا۔ اس کے بعد ۱۹۶۳ء ‘ ۱۹۶۸ء اور ۱۹۷۴ء میں بھی شائع ہوئی۔ ساتویں بار ۱۹۷۸ء میں شائع ہوئی ۔ ۷؎
 
۶؎  سید شمس الحسن مذکورہ بالا صفحہ ۱۶۵ تا ۱۷۳
 
۷؎  شیخ محمد اشرف مرحوم کا خط راقم الحروف کے نا م
 
’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کی اشاعت سے قبل ہی قائد اعظم محمد علی جناح کو ان خطوط کے ترجمہ کی اشاعت کے لیے فرمائشیں موصول ہونے لگیں۔ اسی طرح کی ایک فرمائش شیخ عطاء اللہ (وفات دسمبر ۱۹۶۸ئ) استاد معاشیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی طرف سے آئی۔ انہوںنے ۱۹ فروری ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ وہ خطوط اقبال کا مجموعہ ’’اقبال نامہ‘‘ کے نام سے شائع کرا رہے ہیں۔ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کو ان میں شامل کرنے کی اجازت چاہیے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی طرف سے محمد شریف طوسی (جو ان دنوں ایم آر ٹی کے قلمی نام سے مضامین لکھتے تھے اور قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاں اپنی کتاب کے سلسلے میں کام کر رہے تھے) نے دیا کہ ان خطوط کی اشاعت کا انتظا م ہو گیا ہے۔ اس لیے ان خطوط کی نقل ارسال نہیں کی جا رہی۔
 
اپریل ۱۹۴۳ء میں جب ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘انگریزی زبان میں شائع ہو گئے تو پھر شیخ عطا اللہ نے ۱۸ اپریل ۱۹۴۳ء کو خط لکھا اور ملاقات کی درخواست کی تاکہ بالمشافہ بات چیت کر کے ان خطو ط کی اردو میں اشاعت کی اجازت حاصل کر سکیں۔ ۱۹ اپریل ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے جواب دیا کہ وہ ان دنوں مسلم لیگ کے اجلاس کے سلسلے میں کافی مصروف ہیں ۔ اجلاس کے بعد ملاقات ہو سکے گی۔ اس طر ح یہ معاملہ کچھ وقت کے لیے کھٹائی میں پڑ گیا۔
 
یکم نومبر ۱۹۴۳ء کو شیخ عطا اللہ نے دوبارہ اس معاملہ کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح کو خط لکھا۔اس کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ۶ نومبر ۱۹۴۳ء کو لکھا کہ ان خطوط کی انگریزی زبان میں اشاعت کے لیے انہوںنے ایک ناشر سے معاملہ طے کر لیا ہے ۔ وہ ان خطوط کااردو ترجمہ ان کی کتاب ’’اقبال نامہ‘‘ میں شامل کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہیں۔ بشرطیکہ وہ مبلغ تین سو روپے یکمشت بطور رائلٹی اپنی کتاب کے پہلے ایڈیشن پر دینے کے لیے تیار ہوں۔ نئے ایڈیشن کے لیے بھی اسی طرح کی شرائط ہوں گی۔
 
قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے خط میں یہ بھی تحریر کیا کہ وہ یہ رقم اپنی ذات کے لیے نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ یہ رقم عطیہ کے طور پر مسلم لیگ کے فنڈ میں جمع ہو گی۔ شیخ عطاء اللہ ان شرائط پر ان خطوط کو شائع کرنے پر رضامند نہ ہوئے اور انہوںنے ۱۲ نومبر ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھ دیا کہ ان کی کتاب کی نکاسی کے امکانات ایسے نہیں ہیں کہ وہ اس سلسلے میں کوئی مالی بار برداشت کر سکیں۔
 
اسی طرح کی ایک فرمائش ۴ ستمبر ۱۹۴۳ء کو باغبانپورہ لاہور سے عفت مقصود نے کی کہ اسے ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘اردو میں شائع کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے ۱۰ ستمبر ۱۹۴۳ء کو لکھا کہ وہ ان خطوط کے اردو ترجمہ کی اشاعت کی اجازت دینے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ وہ اس کی رائلٹی کے طورپر ایک معقول رقم مثلاً تین سو روپے یکمشت پہلے ایڈیشن کے لیے جو کہ تین ہزار کی تعداد کا ہو گا دینے کے لیے تیار ہو۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ بھی لکھا کہ انہیں اس رقم کی سخت ضرورت ہے۔ یہ رقم انہیں اپنی ذا ت کے لیے نہیں چاہیے بلکہ یہ رقم بطور عطیہ مسلم لیگ کے فنڈ میں جمع ہو گی۔ آئندہ اشاعت کے لیے اسی قسم  کی شرائط ہوں گی۔ اگر وہ رضامند ہوں تو براہ کرم اطلاع دیں ۸؎ لیکن یہاں بھی بات آگے نہ بڑھ سکی۔
 
’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘سب سے پہلی بار اردو میں ادارہ اشاعت اردو عابد روڈ حیدر آباد دکن سے ستمبر ۱۹۴۳ء میں شائع ہوئے۔ اردو ترجمہ سید مشتاق احمد چشتی کا تھا حیران کن بات یہ ہے کہ کتابیات اقبال کے متعلق اب تک جتنی کتابیں شائع ہوئی ہیںان میں سے کسی ایک کتاب میں بھی سید مشتاق احمد چشتی کے ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کے اردو ترجمہ کا ذکر تک نہیں ہے۔ اس کے بعد عبدالرحمن سعید نے ان خطوط کا اردو ترجمہ کیا جو کہ حیدر آباد دکن ہی سے شائع ہوا۔ اس ترجمہ کے اب تک تین چار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
 
یہاں میں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتاہوں وہ یہ ہے کہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کا سب سے پہلے اردو ترجمہ عبدالرحمن سعید کا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ درست نہیں۔ ان خطوط کا سب سے پہلا اردو ترجمہ سید مشتاق احمد چشتی کا ہے ۔ یہ ترجمہ ۱۹۴۳ء میں شائع ہوا تھا۔
 
۸؎  سید شمس الحسن مذکورہ بالا صفحہ ۱۸۰ تا ۱۸۱
 
قائد اعظم محمد علی جناح کی اجازت کے بغیر یہ ترجمہ شائع ہوا۔ یہ اس طرح ظاہر ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ۶ نومبر ۱۹۴۳ء کو شیخ عطااللہ کے خط کے جواب میں لکھا تھا کہ انہوںنے صرف انگریزی زبان میں ان خطوط کی اشاعت کا معاملہ ایک ناشر سے طے کیا ہوا ہے۔ عبدالرحمن سعید نے خطوط اقبال کا ترجمہ قائد اعظم محمد علی جناح کی اجازت سے شائع کیا تھا۔ یہ اس طرح سے واضح ہوتا ہے کہ ۱۱ نومبر ۱۹۴۵ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک  خط کے جواب میں لکھا ہے کہ انگریزی اور اردو میں ان خطوط کی اشاعت کے لیے دو پارٹیوں سے معاملہ طے ہو چکا ہے۔ اس وقت تک ان خطوط کے صرف دو ارد و ترجمے شائع ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ہی قائد اعطم محمد علی جناح کا معاملہ طے ہوا تھا۔ اور وہ عبدالرحمن سعید ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ ان ہی کا ترجمہ بارہا شائع ہوتا رہا ہے جبکہ سید مشتاق احمد چشتی کا ترجمہ دوسری مرتبہ شائع نہ ہو سکا۔
 
۱۲ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو ایس ایم بذل الحق نے قائد اعظم محمد علی جناح سے ان خطو ط کے بنگالی ترجمہ شائع کرنے کی اجازت چاہی۔ جس کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ۱۱ نومبر ۱۹۴۵ء کو انہیں جواب دیا کہ وہ ان کطوط کا بنگالی زبان میں ترجمہ شائع کر سکتے ہیں کسی دوسری زبان میں نہیں کیونکہ انگریزی اور اردو میں ان خطوط کی اشاعت کے لیے ان کی دو پارٹیوں سے معاملہ طے ہو چکا ہے۔ اسی طرح ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو کے ایم یوسف نے قائد اعظم محمد علی جناح سے درخواست کی کہ انہیں ان خطوط کا ترجمہ تامل زبان میں شائع کرنے کی اجازت دی جائے۔ جس کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ۳۹ دسمبر ۱۹۴۵ء کو لکھا کہ انہیں ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کو تامل زبان میں شائع کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ۹؎۔
 
قیام پاکستان کے بعد ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی متعدد بار شائع ہوئے۔ ’’اقبال نامہ‘‘ حصہ دوم مرتبہ شیخ عطاء اللہ میں یہ خطوط شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان خطوط کا اردو ترجمہ پروفیسر سعید کی کتاب ’’اقبال اورقائد اعظم‘‘ اور محمد حنیف شاید کی کتاب ’’علامہ اقبال اور قائد اعظم کے سیاسی نظریات‘‘ میں بھی شامل ہے۔
 
۹؎  سید شمس الحسن مذکورہ بالا صفحہ ۱۸۰تا۱۸۲
 
’’ماہ نو‘‘ کے علاوہ ملک کے دوسرے رسائل و جرائد میں بھی یہ بارہا شائع ہو چکے ہیں۔ دسمبر ۱۹۷۶ء میں ان خطوط کا اردو ترجمہ پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی نے کیا جو فیصل آباد سے شائع ہوا۔ سال اقبال ۱۹۷۷ء میں راقم الحروف نے بھی ان خطوط کا اردو ترجمہ مع حواشی تیار کیا۔ اس کے ساتھ ان خطوط کے مباحث پر ایک مقدمہ بھی تحریر کیا جو علمی اور تعلیمی حلقوں میں اچھی نظر سے دیکھا گیا۔
 
’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘میںخطوط اقبال کی تعداد تیرہ (۱۳) تھی ۱۹۸۰ء میں مجھے علامہ اقبال کے دو اور خط ملے جو انہوںنے ان ہی دنوں قائد اعظم کو لکھے تھے۔ پہلا خط ۸ دسمبر ۱۹۳۶ء کا تحریرکردہ ہے۔ اوردوسرا خط ۱۳ اگست ۱۹۳۷ء کو لکھا گیا تھا۔ اس طرح حضرت علامہ اقبال کے قائد اعظم کے نام خطوط کی تعداد پندرہ (۱۵) ہو گئی۔ علاوہ ازیں تین خطوط  ایسے ہیں جو ان ہی دنو ں جناب غلام رسول خاں بار ایٹ لاء سیکرٹری پنجاب مسلم لیگ نے اعلامہ اقبال کی طرف سے قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھے تھے۔ ان تمام خطوط جو کہ تعداد میں اٹھارہ (۱۸) ہو گئے کو ترتیب دے کر راقم الحروف نے اپریل ۱۹۸۳ء میں ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کا جدید ایڈیشن شائع کرایا تھا۔ پچھلے دنوں معروف اقبال شناس پروفیسر صابر کلوروی نے علامہ اقبال کا قائد اعظم محمد علی جناح کے نام ایک اور خط تلاش کیا۔ یہ خط ۱۰ مئی ۱۹۳۷ء کا تحریر کردہ ہے۔ ’’اقبالیات‘‘ (جلد ۲۸ شمارہ ۴) جنوری مارچ ۱۹۸۸ء میں شائع ہوا ہے۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ لاہور ۹ نومبر ۱۹۸۸ء کے اقبال نمبر میں بھی اس کا متن اور عکس شائع ہوا ہے۔ اس طرح اب حضرت علامہ اقبال کے قائد اعظم محمد علی جناح کے نام خطوط کی تعداد  انیس (۱۹) ہو گئی ہے۔
 
</div>
 

Latest revision as of 22:09, 11 July 2018