Difference between revisions of "قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائی"
From IQBAL
Zahra Naeem (talk | contribs) (Created page with " قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائي ہو صاحب مرکز تو خودي کيا ہے ، خدائي جو فقر ہوا تلخي دوراں کا گل...") |
(No difference)
|
Revision as of 17:22, 25 May 2018
قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائي
ہو صاحب مرکز تو خودي کيا ہے ، خدائي
جو فقر ہوا تلخي دوراں کا گلہ مند
اس فقر ميں باقي ہے ابھي بوئے گدائي
اس دور ميں بھي مرد خدا کو ہے ميسر
جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائي
در معرکہ بے سوز تو ذوقے نتواں يافت
اے بندئہ مومن تو کجائي ، تو کجائي
خورشيد ! سرا پردئہ مشرق سے نکل کر
پہنا مرے کہسار کو ملبوس حنائي