Actions

Difference between revisions of "قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائی"

From IQBAL

(Created page with " قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائي ہو صاحب مرکز تو خودي کيا ہے ، خدائي جو فقر ہوا تلخي دوراں کا گل...")
 
m (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Zahra Naeem)
(Tag: Rollback)
 
(3 intermediate revisions by 2 users not shown)
Line 1: Line 1:
 +
"<div dir="rtl">
 +
 +
'''قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائی'''
  
 
قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائي
 
قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائي
Line 19: Line 22:
  
 
پہنا مرے کہسار کو ملبوس حنائي
 
پہنا مرے کہسار کو ملبوس حنائي
 +
</div >

Latest revision as of 01:05, 20 July 2018

"

قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائی

قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائي

ہو صاحب مرکز تو خودي کيا ہے ، خدائي

جو فقر ہوا تلخي دوراں کا گلہ مند

اس فقر ميں باقي ہے ابھي بوئے گدائي

اس دور ميں بھي مرد خدا کو ہے ميسر

جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائي

در معرکہ بے سوز تو ذوقے نتواں يافت

اے بندئہ مومن تو کجائي ، تو کجائي

خورشيد ! سرا پردئہ مشرق سے نکل کر

پہنا مرے کہسار کو ملبوس حنائي