Actions

Difference between revisions of "قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائی"

From IQBAL

Line 1: Line 1:
 
"<div dir="rtl">
 
"<div dir="rtl">
 +
 +
'''قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائی'''
 +
 
قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائي
 
قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائي
  

Revision as of 19:21, 26 May 2018

"

قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائی

قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائي

ہو صاحب مرکز تو خودي کيا ہے ، خدائي

جو فقر ہوا تلخي دوراں کا گلہ مند

اس فقر ميں باقي ہے ابھي بوئے گدائي

اس دور ميں بھي مرد خدا کو ہے ميسر

جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائي

در معرکہ بے سوز تو ذوقے نتواں يافت

اے بندئہ مومن تو کجائي ، تو کجائي

خورشيد ! سرا پردئہ مشرق سے نکل کر

پہنا مرے کہسار کو ملبوس حنائي