Actions

شکوہ اور واسوخت

From IQBAL

Revision as of 18:09, 9 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> اردو کے قدیم واسوخت ، حالی کی مسدّس ’’ مد و جزر اسلام‘‘ اور اقبال کا ’’شکوہ‘‘ مسدس ہ...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

اردو کے قدیم واسوخت ، حالی کی مسدّس ’’ مد و جزر اسلام‘‘ اور اقبال کا ’’شکوہ‘‘ مسدس ہیئت میں لکھے گئے ہیں، تاہم ہیئت کی یکسانیت سے قطع نظر تینوں میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ واسوخت اور ’’ شکوہ‘‘ میں ظاہری مماثلت بہت نمایاں ہے۔ لب و لہجے اور تنظیم و ترتیب کے اعتبار سے بھی شکوہ میں واسوخت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ سر عبدالقادر لکھتے ہیں:’’ہم شکوۂ اقبال کو واسوخت ہی قرار دے سکتے ہیں ۔ ہر چند کہ اقبال کا مخاطب محبوبِ حقیقی ہے اور ان کی شکوہ سنجی، حدود و قیود سے بہت ہی کم آگے بڑھی ہے لیکن نظم کے بناؤسنگار کے اعتبار سے واسوخت سے قریب ہے‘‘۔( نذر اقبال: ص ۱۴۹) سرعبدالقادر نے آگے چل کر بعض مثالوں کے حوالے سے میرؔ کے واسوخت اور ’’شکوہ‘‘ کی باہمی مماثلت دریافت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مجازی اور حقیقی محبوب کے اختلاف کے باوجود، مذکورہ بالا اشعار میں میرؔ اور اقبال کی لَے مل جاتی ہے۔ معنوی اعتبار سے وہ ایک دوسرے کے ضمیمے نظر آتے ہیں۔(نذر اقبال:ص ۱۵۳) اس میں شبہہ نہیں کہ میرؔ کے واسوخت اور ’’شکوہ‘‘ کے بعض مصرعوں، اشعار اور کئی بندوں میں میرؔ اور اقبالؔ کے ہاں یکسانیت کا احساس ہوتا ہے ۔ ( ممکن ہے کہ شکوہ کی تشکیل و تحریر کے زمانے میں میرؔ کی واسوخت غیر شعوری طور پر اقبال کے ذہن پر اثر انداز ہوئی ہو۔ بہر حال اکابرِ ادب کے ہاں اس طرح کی مماثلتوں کا پایاجانا انوکھی بات نہیں) تاہم معنوی اعتبار سے ان میں نمایاں فرق ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میرؔ محبوب مجازی سے نہایت بے تکلفانہ انداز میں مخاطب ہوئے ہیں، قدرے تلخ و ترش لہجے میں اس سے برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور پھر اس سے علاحدگی اختیار کرنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں ۔ اقبال کے لیے یہ لہجہ اپنانا مشکل تھا۔ ان کا خطاب ذاتِ باری تعالیٰ سے ہے اس لیے ’’ شکوہ‘‘ میں انھوں نے احترام و تقدیس کی ایک خاص سطح برقرار رکھی ہے ۔ مزید برآں میرؔ کی واسوخت ایک لحاظ سے شخصی جذبات و احساسات کا اظہار ہے ( یہ الگ بات ہے کہ ان کی تعمیم بھی کی جا سکتی ہے) اور اس کی نوعیت ایک ذاتی واسوخت کی ہے۔ برعکس اس کے ’’ شکوہ‘‘ کا موضوع اجتماعی ہے۔ یہ کسی ایک فرد کی شخصی سوچ کے بجاے پوری امت ِ مسلمہ کے ذہن کی عکاسی ہے۔ ’’شکوہ‘‘ کی ہیئت روایتی ہے تاہم اپنی معنوی انفرادیت اور اسلوب کی ندرت کے اعتبار سے قدیم ادب میں ایسی شاعری کی مثال نہیں ملتی۔ ’’شکوہ‘‘ ایک اعتبار سے امت ِ مسلمہ کا مرثیہ ہے اور یہ امر قابلِ توجّہ ہے کہ ’’شکوہ‘‘ کے لیے اقبالؔ نے مسلمہ طور پر اردو مرثیے کی روایتی ہیئت (مسدس) کا انتخاب کیا۔